افغانستان کے قومی سلامتی کے مشیر حمداللہ محب کی واشنگٹن میں افغان طالبان اور امریکہ کے امن مذاکرات پر تنقید کو امریکہ نے مسترد کرتے ہوئے اس قسم کے بیانات کو امن مذاکرات کے لیے خطرہ قرار دیا ہے۔
امریکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق محب نے امریکہ کے طالبان سے مذاکرات پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ ایک غیر قانونی عسکریت پسند نیٹ ورک کو قانونی راستہ مہیا کر رہا ہے، ان کے ساتھ معاہدے کر رہے ہیں اور افغانستان کی حکومت کو نظر انداز کر رہے ہیں جو کسی طرح بھی امن لانے کے لیے بہتر راستہ نہیں ہے۔
افغان مشیر نے امریکہ میں افغانستان کے سفیر زلمی خلیل زاد کو بھی اپنی تقریر میں نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ خلیل زاد کے تمام مذاکراتی عمل میں اپنا ذاتی فائدہ ہے کیونکہ وہ چاہتے کہ افغانستان میں عبوری حکومت آکر خود ‘وائسرائے‘ بن جائیں اور افغانستان کی موجودہ حکومت کو سارے معاملے میں نظر انداز کر رہے ہیں۔
یہ بات اس وقت سامنے آئی ہے جب گذشتہ ہفتے امریکہ اور افغان طالبان کے مابین 31 دنوں سے جاری مذاکرات کا تیسرا دور مکمل ہوگیا ہے۔
یہ مذاکرات امریکہ اور طالبان کے مابین ہو رہے ہیں جس میں افغانستان کی موجودہ حکومت کو شامل نہیں کیا گیا کیونکہ طالبان افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کی میز پر ببیٹھنا نہیں چاہتے۔
مذاکرات کے تیسری دور کے بعد زلمے خیل زاد نے ٹویٹ میں کہا ہے کہ طالبان کے ساتھ مخلتف امور پر بات کی گئی اور دو اہم امور جس میں افغانستان سے بیرون افواج کے انخلا اور انسداد دہشت گردی کے حوالے سے ڈرافت بنایا گیا لیکن ابھی تک دونوں معملات پر کوئی معاہدہ نہیں ہوا ہے۔
امریکہ نے محب اللہ کو اپنے بیان کے بعد دفتر خارجہ بھی طلب کیا ہے اور خبرساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق انہیں واضح پیغام دیا ہے کہ زلمے خلیل زاد پر تنقید کرنا امریکہ پر تنقید ہے اور وہ ایسا نہیں ہونے دیں گے۔
امن مذاکرات پر تنقید کیوں؟
اس سارے معاملے پر تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ طالبان افغانستان میں موجودہ حکومت کو امریکہ کی ’کٹھ پتلی‘ حکومت سمجھتے ہیں اور ان کا یہی خیال ہے کہ ان سارے معاملے کی ’جڑ‘ امریکہ ہی ہے۔
افغان امور پر نظر رکھنے والے پشار کے سینیئر صحافی مشتاق یوسفزئی نے انڈ پینڈنٹ اردو کو بتایا کہ طالبان کے خیال میں امریکہ نے ہی ان کو حکومت سے نکال دیا ہے اور افغانستان میں امن نہ ہونا امریکہ ہی کی وجہ سے ہے۔
’افغانستان کی حکومت سے زلمے خیل زاد مذاکرات شروع ہونے سے پہلے ملے بھی تھے اور افغانستان کی حکومت نے مذاکرات کرنے پر اس وقت اعتراض نہیں اٹھایا تھا لیکن اب اس پر تنقید کر رہے ہیں۔‘
ان سے جب پوچھا گیا کہ افغانستان حکومت کی طرف سے اب اتنا سخت موقف کیوں سامنے آگیا؟ اس کے جواب میں انھوں نے بتایا کہ مذاکرات میں ایک بات یہ کی گئی ہے اگر طالبان نے اس پر رضامندی کا اظہار بھی کیا ہے کہ افٖغانستان میں عبوری حکومت قائم کی جائے اور طالبان کے نمائندوں کو اس میں اہم عہدے دیے جائیں۔
انہوں نے مذید بتایا کہ یہی عبوری حکومت ملک میں عام انتخابات کرائے گی جس میں طالبان بھی حصہ لے سکیں گے۔ ان کے مطابق افغانستان کی موجودہ حکومت کو اب سروائول کا مسئلہ درپیش ہے۔
’عبوری حکومت آنے کے بعد موجودہ حکومت کی لیڈرشپ کو خدشہ ہے کہ ان کی طاقت کو چیلنج کیا جائے گا۔‘
بظاہر لگ رہا ہے کہ افغانستان کی دیگر حزب اختلاف کی جماعتیں اس سارے مذاکراتی عمل اور عبوری حکومت آنے پر رضامند ہے۔
مشتاق یوسفزئی کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں روس میں طالبان مذاکرات کے لیے افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی سمیت دیگر حزب اختلاف کی جماعتوں کے نمائدوں کو بلایا گیا تھا۔
اس سارے معاملے میں پاکستان کا موقف واضح ہے۔ پاکستان مذاکراتی عمل کو سپورٹ کرتا ہے اور اس سلسلے میں پاکستان کے دفتر خارجہ نے مخلتف مواقع پر مذاکراتی عمل پر خوشی کا اظہار کیا ہے۔
تاہم قطر میں اسی مذاکراتی عمل کے دوسرے دور میں شریک ذرائع نے انڈ پینڈنٹ کو بتایا کہ پاکستان نے طالبان کو اسلام آباد آنے کی دعوت دی تھی لیکن ان کو مسترد کیا گیا تھا اور اس کی وجہ طالبان کی جانب سے یہ بتائی گئی تھی کہ ان کے کچھ رہنماؤں پر سفری پابندی ہے اسی وجہ سے پاکستان نہیں جا سکتے۔
ذرائع کے مطابق دوسرے دور کے مذاکرات میں طالبان کو امریکہ کی جانب سے یہ بھی بتایا گیا تھا کہ وہ افغانستا ن میں داعش اور القاعدہ سے لاتعلقی کا بھی اعلان کریں گے۔ ان کے مطابق طالبان نے مذاکرات کے دوران کہا تھا کہ اگر امریکہ کے ساتھ مذاکرات کامیاب رہتے ہیں تو افغانستان کی موجودہ حکومت یا مذاکرات کے مخالفین کو راضی کرنا آسان ہے۔
کیا عوام مذاکرات کے حق میں ہیں؟
مشتاق یوسفزئی کا موقف ہے کہ افغانستان سے بیرون افواج کے انخلا اور اس کے بعد کی صورتحال پر موجودہ حکومت کو تشویش ہے۔
ان کے مطابق موجودہ حکومت کا خیال کے کہ بیرونی افواج کے انخلا سے افغانستان میں خانہ جنگی دوبارہ شروع ہو جائے گی۔
انھوں نے بتایا کہ افغانستان گذشتہ کئی دہائیوں سے بدامنی کا شکار ہے اور وہاں کے عوام ہر قسم کے امن مذاکرات کو سپورٹ کرتے ہیں چاہے امریکہ کی طرف سے ہوں یا افغانستان کی حکومت کی طرف سے۔
’عوام کو اس سے کوئی سروکار نہیں ہے کہ مذاکرات کون کر رہا ہے لیکن وہ صرف امن چاہتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ مذکرات ہی اس سارے مسئلے کا حل ہے۔‘