پنجاب کے ضلع جہلم سے تعلق رکھنے والے انجینیئر محمد علی مرزا مقامی عدالت نے 50 ہزرا روپے مچلکوں کے عوض رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔ انجینیئر محمد علی مرزا کو ایک ویڈیو پیغام میں مبینہ طور پر پیروں کے قتل پر اکسانے کے الزام میں پولیس نے گرفتار کر لیا تھا۔
جہلم پولیس کی جانب سے انجینیئر محمد علی مرزا کے خلاف شہریوں کی شکایت پر منگل کی شام مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
انجینیئر محمد علی مرزا پاکستان میں رائج روایات کے مطابق کسی مدرسہ سے فارغ التحصیل ہیں نہ ہی کوئی گدی نشین یا امام مسجد ہیں۔ وہ ایک سرکاری محکمے میں 19ویں سکیل کے انجینیئر ہیں۔
ان کی شہرت کی وجہ مذہبی تعلیمات کی تبلیغ پر مبنی ویڈیوز ہیں جو وہ گذشتہ چند سالوں سے سوشل میڈیا پر پوسٹ کرتے رہے ہیں۔ یو ٹیوب پر وہ خاصے مقبول ہیں اور ان کی بعض ویڈیو کئی ملین مرتبہ دیکھی جا چکی ہیں۔ یو ٹیوب کے اعداد و شمار کے مطابق ان کے چینل کی ویڈیوز کو تقریباً 20 کروڑ مرتبہ دیکھا جا چکا ہے۔
انجینیئر محمد علی مرزا کا کہنا ہے کہ وہ مذہبی خدمات سے روزگار نہیں کماتے بلکہ اپنی تنخواہ سے اخراجات چلاتے ہیں۔
مقامی افراد کہتے ہیں کہ انجینیئر محمد علی مرزا جہلم میں ریسرچ اکیڈمی بنا کر طلبہ کو قرآنی تعلیمات بھی دیتے ہیں اور انہوں نے پہلے تین سال تک یہیں سے مذہبی تعلیم حاصل کیں، تاہم ان کے پاس باضابطہ طور پر کوئی مذہبی تعلیمی سند نہیں ہے۔ اس کے بعد انہوں نے اسلام کی تبلیغ بھی اسی ریسرچ اکیڈمی سے شروع کی جس کے لیے انہوں نے سوشل میڈیا کا سہارا لیا۔
انجینیئر محمد علی مرزا کے متنازع بیانات
محمد علی مرزا سرکاری افسر ہونے کے باوجود مذہب کی تبلیغ کرتے رہے ہیں اور ان کے ہزاروں پیروکار بھی ہیں لیکن ان کے خلاف مذہبی حلقوں کی جانب سے اس وقت ردعمل آیا جب انہوں نے مختلف فرقوں اور علما کے خلاف ویڈیو پیغامات جاری کیے۔
انڈپینڈنٹ اردو کو حاصل شدہ ایف آئی آر کی نقل میں لکھا ہے کہ انہوں نے حال ہی میں اپنے ایک ویڈیو پیغام میں دو معروف علما کے بارے میں کہا کہ ’دونوں میں سے ایک شہید ہو جانا چاہیے۔‘
ان کے اس بیان پر وہاں بیٹھے لوگوں نے بھی مزاحمت کی اور یہ ویڈیو وائرل ہو گئی جسے بعد میں شہریوں نے پولیس کو ثبوت کے طور پر پیش کر دی اور یہی ویڈیو پیغام ان کی گرفتاری کا سبب بنا۔
ایک ویڈیو پیغام میں انہوں نے تمام فرقوں کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے فرائض اور سنتوں سے متعلق بھی کئی متنازع پیغامات جاری کیے جو دیگر علما کے نزدیک ناپسندیدہ قرار پائے۔
انہوں نے ایک ویڈیو پیغام میں احمدیوں کو یہودیوں اور دیگر مذاہب سے بدتر سمجھنے کی بھی مخالفت کی جس کے بعد ان پر احمدیت کی حمایت کا بھی الزام لگایا گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جہلم کے مقامی صحافی فدا حسین نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ انجینیئر محمد علی مرزا 2014 سے سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیوز سے منظر عام پر آئے۔
’وہ روایتی طور پر مذہبی جماعت یا مدرسہ نہیں چلاتے بلکہ ان کی ریسرچ اکیڈمی ہے جہاں کافی لوگ بھی مذہب کی تعلیمات کے لیے جاتے ہیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ محمد علی مرزا نے کبھی میڈیا کوریج کے لیے کسی صحافی کو دعوت دی نہ ہی ملاقات کی۔
انہوں نے کہا کہ ان کے متنازع بیانات اور ردعمل سے متعلق سوشل میڈیا سے ہی پتہ چلتا تھا۔
قانونی کارروائی اور فالورز کا ردعمل
پولیس تھانہ صدر جہلم کے پولیس افسر چودھری افضل نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہیں شہریوں کی جانب سے متعدد بار شکایات موصول ہوئیں کہ انجینیئر محمد علی مرزا مبینہ طور پر صحابہ اور علما کی توہین کرتے ہیں لیکن جب ان کے دھمکیوں پر مبنی اور دو مذہبی رہنماؤں کے قتل کا اشتعال دلانے کی ویڈیو پولیس حکام کو پیش کی گئی تو اعلیٰ حکام نے ان کی گرفتاری کا حکم دیا۔
پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کے رہائشی احتشام الحق نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انہوں نے وزیر اعظم عمران خان، پاکستان ٹیلی کام اتھارٹی (پی ٹی اے)، وفاقی تحقیاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کو تحریری درخواستیں دی ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ ’انجینیئر محمد علی مرزا اپنے ویڈیو پیغامات میں صحابہ، علما اور اولیائے کرام کی توہین کے مرتکب ہوئے ہیں۔‘
انہوں مزید کہا کہ ’محمد علی مرزا کے جانب سے اعلانیہ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 295اے، 298اے بی کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ ان کے خلاف فوری کارروائی عمل میں لائی جائے اور ان کے یو ٹیوب، فیس بک، ٹوئٹر اور دیگر سوشل میڈیا اکاؤنٹس بند کیے جائیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ویڈیو پیغامات سے ان کے جذبات مجروح ہوئے اس لیے وہ ان کے خلاف کارروائی چاہتے ہیں۔
احتشام الحق نے بتایا کہ درخواستیں دینے پر انجینیئر محمد علی مرزا کے پیروکار انہیں اندرون و بیرون ملک سے فون پر جان سے مارنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں جس کی انہوں نے متعلقہ تھانے اسلام گڑھ میر پور میں شکایت بھی درج کرا دی ہے۔
انجینیئر محمد علی مرزا کے قریبی ساتھی انوار احمد کے مطابق ان کے ویڈیو پیغامات کو ایڈٹ کر کے ثبوت بنائے گئے ہیں اور پولیس کو کارروائی کا جواز پیش کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا وہ عرصہ دراز سے اسلامی تعلیمات کو فروغ دے رہے ہیں لیکن ’بعض پیشہ ور مذہبی علما ان کو برداشت نہیں کر پا رہے۔ ان کے مکمل بیان کی بجائے کسی معاملے کو سمجھانے کے لیے دیا گیا بیان کاٹ کر ویڈیو وائرل کر دی جاتی ہے جبکہ وہ پڑھے لکھے اور قرآن و سنت کو سمجھنے والی شخصیت ہیں۔‘
ان کے خیال میں یہ سب محمد علی مرزا کے خلاف سازشیں ہیں جو جلد دم توڑ جائیں گی۔