پاکستان میں کئی ہفتوں سے جاری کرونا (کورونا) وبا سے ایک بات تو واضح ہے کہ ہمارے ہاں تباہی اتنی زیادہ، سنگین یا خوف ناک نہیں جتنا امریکہ یا یورپی ممالک میں دیکھی گئی۔
دور کی بات چھوڑیں، ہمارے ہی خطے میں چین اور ایران میں جو ہلاکتیں دیکھی گئیں الامان الحفیظ۔ بھارت، افغانستان اور روس میں کرونا کیسز اور اموات کی تعداد پاکستان سے کہیں زیادہ ہے۔
پاکستان میں مریضوں کے کم ہونے کی جو بھی طبی، سیاسی یا سماجی توجیہہ بیان کی جائے یا اسے ٹیسٹوں کے کم ہونے کا اعجاز گردانا جائے لیکن اصل بات تو یہ ہے کہ پاکستان میں کرونا سے اموات کی تعداد (یہ سطور رقم کرتے وقت تک) 600 سے زائد ہیں۔
جان تو ایک بھی بہت قیمتی ہے لیکن کرونا وبا کی عالمی تباہ کاریاں دیکھتے ہوئے جہاں ہر دن ہزاروں کی تعداد میں لوگ مر رہے ہوں، جہاں جنازے پڑھانے کے لیے لوگ نہ ملتے ہوں، جہاں دفنانے کے لیے تابوت اور جگہ کم پڑ جائے تو ایسی بھیانک صورت حال میں خدا کا شکر ہی کرنا چاہیے کہ پاکستان ابھی اس خوف ناک حالت سے محفوظ ہے۔
ٹیسٹ کم کیے جا سکتے ہیں، کیسز کی تعداد گھٹائی بڑھائی جا سکتی ہے جیسا کہ گذشتہ دنوں پنجاب اور سندھ کو ان سوالات کا سامنا رہا کہ ٹیسٹوں کی تعداد کم کیوں کی جا رہی ہے لیکن اموات کی تعداد نہ تو چھپائی جا سکتی ہے نہ کم کر کے پیش کی جا سکتی ہے۔ پاکستان بھر سے جو اعداد و شمار اکٹھے کیے جا رہے ہیں وہ اس بات کی درست نشاندہی کر رہے ہیں کہ ہم آہستہ آہستہ معمولاتِ زندگی بحال کرنے کے متحمل ہو سکتے ہیں۔
اس وقت تک پاکستان میں کرونا وائرس سے جو زیادہ اموات ہوئی ہیں ان مریضوں میں کسی نہ کسی دوسری بیماری کی موجودگی بھی پائی گئی جس کی وجہ سے ان کا جسم اس وائرس کے مہلک وار سے نمٹنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ فی الوقت حکومت نے اس کا ڈیٹا مرتب نہیں کیا لیکن ضروری ہے کہ ان تفصیلات پر مبنی چارٹ یا گراف بھی سرکاری سطح پر جاری کیے جائیں کہ کتنے مریض دیگر بیماریوں میں مبتلا تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان بیماریوں کی لسٹ بھی دی جائے تاکہ نہ صرف میڈیکل ڈیٹا مرتب کرنے میں آسانی رہے بلکہ دیگر لوگوں کے لیے بھی آگاہی ہو خاص طور پر جو انہی بیماریوں کا شکار ہوں۔
اموات کی تعداد کو سامنے رکھتے ہوئے فی الحال وفاقی حکومت کے لاک ڈاؤن مرحلہ وار کھولنے کے اقدام کی تائید ہونی چاہیے لیکن اس میں ایک عنصر غائب رہا۔ ضروری ہے کہ وفاقی حکومت اس بات کا نہ صرف تعین کرے بلکہ واضح اعلان بھی کرے کہ لاک ڈاؤن ختم کرنے کے کتنے مراحل ہوں گے اور کیا کیا ہوں گے۔
حکومت نے ابھی تو صرف پہلے مرحلے کی نرمی کا اعلان کیا ہے لیکن عوام کو پالیسی سازی پر مکمل اعتماد میں لینے کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی سوچ کھول کر عوام کے سامنے رکھے۔ ہر مرحلے میں عوام کن کن مقامات پر جا سکیں گے یہ سب واضح کرنا انتہائی ضروری ہے۔ اس وقت تو یہ ہوا ہے کہ حکومت نے صرف لاک ڈاؤن میں نرمی کے فیز ون کا اعلان کیا ہے اور عوامی مقامات پر کھڑکی توڑ رش دیکھنے میں آ رہا ہے۔
یہاں سب سے بڑی ذمہ داری عوام کی ہے۔ عوام کو نہ صرف احساس کرنا ہے بلکہ احتیاط بھی کرنی ہے۔ نرمی صرف لاک ڈاؤن میں ہوئی ہے کرونا وائرس میں نہیں۔ وفاقی حکومت کے علاوہ صوبائی حکومتوں نے تو اپنے اپنے طور پر لاک ڈاؤن میں نرمی کا فیصلہ کیا ہے لیکن عوامی رجحان ہر جگہ ایک جیسا دیکھنے میں آ رہا ہے۔
اس وقت تک اگر پاکستان میں کرونا وائرس اموات کی تعداد بڑی حد تک کم ہے تو ایک وجہ خوف کی بنیاد پر لوگوں کا ایک دوسرے سے محتاط رہنا بھی ہے۔ لیکن دیکھنے میں آ رہا ہے کہ کرونا وائرس سے خوف کا یہ عنصر آہستہ آہستہ کم ہو رہا ہے، جس کی بنیادی وجہ انسانی فطرت اور خصلت ہے۔
انسان کو اگر ایک طویل عرصے تک خوف زدہ ماحول کے زندان میں قید رکھا جائے تو قدرتی طور پر اس کا ڈر ختم ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ اس وقت سماجی سطح پر یہی رویہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ کرونا سے عوامی خوف بھی مرحلہ وار موقوف ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ جہاں ایک جانب یہ مثبت پہلو کی نشاندہی کرتا ہے وہیں لاپرواہی اور بےاحتیاطی کے خلاف مسلسل آگہی بھی لازم ہے۔
عوام میں اب خوف کی بجائے احتیاط کے نفسیاتی پہلو کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ اب تک پاکستان نے جتنی بھی اور جس قدر بھی احتیاط کی ہے وہ خوف کے زیرِ اثر رہ کر لاشعوری طور پر اختیار کی ہے۔ اب مرحلہ ہے کہ شعوری طور پر احتیاط اختیار کی جائے۔
اس کے لیے بھی بھرپور اور جارحانہ عوامی آگہی مہم کی ضرورت ہے اور جیسا کہ پہلے عرض کیا حکومتیں اپنی مرحلہ وار لاک ڈاؤن کی نرمی کو عوام کے لیے واضح طور پر بیان کریں تاکہ چنداں ابہام کی گنجائش باقی نہ رہے۔
اس مرحلے پر کڑی احتیاط کر لی تو انشا اللہ اگست، ستمبر تک پاکستان کے لیے صورت حال خوش آئند ہوگی اور سال کے آخر تک پاکستان اپنی رونقیں دوبارہ بحال ہوسکیں گی۔