ہمارے غم نہ جانے کب کم ہوں گے۔ ہر روز ایک نیا سیاپا۔ ایک نئی مصیبت۔
کرونا (کورونا) وائرس کی اموات ہیں کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہیں۔ اوپر سے ٹڈی دل حملہ آور ہے۔ فصلیں اجاڑتا جا رہا ہے۔ جون میں نیا لشکر افریقہ سے وارد ہو سکتا ہے۔ اور اب جہاز کا حادثہ۔ مسافروں کے گھر اجڑ گئے۔ عید کی خوشیاں دل و دماغ میں لیے بس چند لمحوں میں اپنے چاہنے والوں سے ملاقات کرنے کے لیے تیار خواتین، بچے، جوان اور بوڑھے موت کے گھر میں جا پہنچے۔ جہاں مسرتوں نے ڈیرہ جمانا تھا وہاں ماتم کی صف بچھ گئی۔ جس نے اپنے بستر پر میٹھی نیند سونی تھی وہ قبر میں جا لیٹا۔
عجیب جان لیوا نحوست ہے جس نے اس ملک کا گھیراؤ کیا ہوا ہے۔ مثبت رپورٹنگ کرنے والے لشکر بن کر تیار کھڑے ہیں مگر ایک موقع بھی حاصل نہیں ہو رہا کہ جس کے توسط سے وہ اپنے جوہر دکھا کر حب الوطنی کے اگلے درجے پر فائز ہو جائیں۔ دیرینہ مسائل اس کے علاوہ ہیں۔ نہ جیب پیسوں سے پھولی ہوئی ہے اور نہ قومی خزانہ ڈالروں سے بھر رہا ہے۔ کائیاں دشمن ہر دوسرے روز دہشتگردی اور سرحدی حملوں سے حالات مزید دگردوں بنا دیتا ہے۔ بس شبلی فراز اور شہزاد اکبر ڈٹ کر تسلیاں دے رہے ہیں کہ سب کچھ بدلنے والا ہے۔ نہ جانے وہ اتنا حوصلہ کہاں سے لاتے ہیں۔ کیمروں کے سامنے بیٹھ کر مسکراتے ہوئے اس طرح کی باتیں کرنا ایک غیر قدرتی قسم کی صلاحیت مانگتا ہے۔ یہ دل گردے کا کام ہر کسی کے بس کا نہیں۔ آپ کوشش نہ کیجیے گا۔ یہ نہ ہو محلے والے پتھراؤ شروع کر دیں۔
اس پژمردہ اور رنجیدہ ماحول میں زندگی کے لمحے کاٹنا مشکل ہو گیا ہے۔ اس میں کوئی ایسا مشورہ یا ہدایت جو کشکمش کو کم کر سکے تریاق سے کم نہیں۔ اس منظر میں ہم سب کو ڈاکٹر ظفر مرزا اور چند ایک دوسرے مفکرین کو سلام پیش کرنا چاہیے۔ انہوں نے آج کے تبدیل شدہ پاکستان میں رہنے کے سنہری گر سے ہمیں آشنا کر دیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے ویسے تو اپنی کار آمد تجویز کرونا وبا کے سیاق و سباق میں پیش کی مگر یہ ایسا بڑھیا مشورہ ہے کہ اس کو لاگو کر کے ہر معاملے میں دیرپا سکون حاصل ہو سکتا ہے۔
معزز ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ چونکہ اب کرونا اموات میں سنگین اضافہ ہو رہا ہے (کتنی اموات غیر سنگین ہوتی ہیں اس کا تعین کرنا باقی ہے) لہذا اب نتائج کے ذمہ دار عوام خود ہوں گے۔ انہوں نے عوام کو خود اپنا خیال رکھنے اور کرونا سے بچنے کی تاکید کی اور ایک خبر سے مطابق فرمایا کہ عوام احتیاط کریں گے تو بچ جائیں گے۔ اگر نہیں کریں گے تو مارے جائیں گے۔ ظاہراً اس بیش قیمت اور معلوماتی صلاح پر اس چوکیدار کا گمان ہوتا ہے جو رات گئے محلے کے ہر گھر کے سامنے کھونٹی سے کھٹ کھٹ کر کے 'جاگدے رہنا۔ ساڈے تے نہ رہنا' کی آواز لگا کر اپنا فرض پورا کرتا ہے۔
مگر حقیقت میں ڈاکٹر ظفر مرزا کی نصیحت کئ درجے بلند ہے۔ وہ ہمیں سمجھا رہے ہیں کہ اگرچہ لاک ڈاؤن کرنے، بازار کھولنے، کاروبار چلانے، ٹرینیں، بسیں فعال کرنے اور زندگی کے ہر شعبے پر لگی پابندی نقل و حرکت ختم کرنے میں ان کی حکومت پیش پیش ہے لیکن اس پالیسی کے نتائج سے نپٹنے کی ذمہ داری عوام اور صرف عوام کی ہے۔ چوکیدار تو جاگنے کا صرف عمومی مشورہ ہی دیتا ہے۔ وہ یہ تو نہیں کہتا کہ میں چوروں کو ادھر آنے کا کہہ رہا ہوں آپ ہوشیار رہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ڈاکٹر صاحب کے فلسفہ تحفظ شہری جان و مال کی گہرائی میں جائیں تو اس کے اوصاف مزید واضح ہوں گے۔ اس طریقہ کار کو اپناتے ہوئے آپ ریاستی امور پر اخراجات میں کمی کر کے ان کو صفر پر لا سکتے ہیں۔ وہ محکمے جو عوام کو ہر وقت قانون کی حد میں رکھنے پر متعین ہیں ان کو ایک دم ختم کیا جا سکتا ہے۔ جرائم کے بارے میں صرف عوام کو آگاہ کرنے کی ضرورت ہے اور اگر وہ احتیاط نہیں کرتے تو پولیس وغیرہ کو معمور کرنے کی کوئی مجبوری نہیں۔ عوام جانے اور چور، ڈاکو، لٹیرے اور قاتل۔
اسی طرح ٹڈی دل کی آمد پر کسان اور زمینداروں کو خبر پہنچا کر ان کو ان کے حال پر چھوڑا جا سکتا ہے۔ کیا ضرورت ہے پریشان ہونے یا پیسا ڈبونے کی؟ بتا دیا نا! بس کافی ہے۔ پولیو کے قطروں سے لے کر دفاعی امور تک ہر جگہ مرزا ڈاکٹرین کے ذریعے ذمہ داری پوری کر کے عوام کو ذمہ دار ٹہرایا جا سکتا ہے۔
حالیہ ہوائی جہاز کے حادثے کے بعد پی آئی اے کی طرف سے مسافروں کو خود سے احتیاط کرنے کی بروشرز تھما کر آرام سے کام چلایا جا سکتا ہے۔ اور ویسے بھی ناگہانی آفت کی صورت میں ہمارے پاس ایک دائمی نسخہ بھی ہے جس کو بروئے کار لا کر زخموں پر مرہم رکھا جا سکتا ہے۔ اور وہ ہے 'قدرت کے کام'۔ جی ہاں یہ وہ جملہ ہے جو ہر قسم کی نااہلی، بد انتظامی، بد عنوانی اور مجرمانہ غفلت کو تحفظ دے کر کے تمام ملبہ آسمان کی طرف اچھال دیتا ہے۔
مرزا ڈاکٹرین اور 'قدرت کی مرضی' کو یکجا کر کے دیکھیں تو آپ کے دل کا درد کم ہو جانے کے امکانات روشن نظر آئیں گے۔ آپ کی جرات اور استقامت میں وہ اضافہ ہو گا کہ جان جوکھوں کے کام خود سے آسان ہو جائیں گے۔ آپ اپنا مقدر خود تراشیں گے۔ کرونا، ٹڈی دل، سیلاب، زلزلے، بیرونی حملے، اندرونی شورش سے خود بچیں گے۔ حکومت اور ریاست کی مدد کے انتظار میں وقت کاٹنے کی کوفت سے چھٹکارہ ملے گا۔ ہر دم چاک و چوبند رہیں گے۔ اور اگر یہ سب نہیں کریں گے تو جان سے جائیں گے۔
اس طرح اس سرزمین عالی شان کے حکمرانوں کا بوجھ کم ہو گا۔ جو شہری خود کو نہیں بچا سکتا اس کی کسی کو ضرورت نہیں۔مگرخود سے اپنی حفاظت کرنے والے شہریوں کی موجودگی ایک عظیم تحفہ ہے۔ ان کی خود انحصاری کی سہولت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ریاست و حکومت اس دوران اپنا اصل کام کر پائیں گی۔ مثلاً فضائی حادثے میں دو کے علاوہ تمام مسافروں کی ہلاکت اور محلے میں اپنی مدد آپ کے تحت بچوں اور عورتوں کے بچ جانے کے بعد امدادی کارروائیاں تیزی سے جاری کرے گی۔ چینی اور آٹے کی برآمد کے بعد اپنے فیصلے کی خود تحقیقات کروا کر خود کو ہیرو اور دوسروں کو زیرو کرے گی۔ مفتی منیب کو چاند دکھائے گی۔ اور اگر عوام احتیاط نہ کر کے کرونا کی مصیبت میں پھنسے رہے تو ان سے چندہ لے کر کے اس کا کچھ حصہ ان کو واپس دلوا کر اپنی تصویریں بنوائے گی۔ دوران بحران بین لاقوامی وسائل مہیا ہونے پر ان کو اپنے اخراجات کے لیے مختص کرے گی۔ اب اگر ایسی حکومت اور ایسے نظام سے ملک آگے نہ بڑھ پائے تو اس میں پھر عوام کا ہی قصور ہو گا۔