جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ کیا صدر مملکت کی رائے آزاد ہوتی ہے یا کسی پر منحصر ہوتی ہے یہ بڑا اہم سوال ہے۔
سپریم کورٹ میں ہونے والی سماعت دس رکنی لارجر بینچ کر رہا ہے۔
اس موقع پر جسٹس عمر عطابندیال نے چند سوالات کیے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ برائٹ آئیڈیا کس نے دیا کہ معاملہ نیب اور ایف بی آر کو بھیجنے کے بجائے ریفرنس بنایا جائے؟ آپ یہ بتا دیں ریفرنس میں جرم آپ نے کونسا بتایا ہے؟ ایسا جرم بتائیں جس سے جج پر اعتماد مجروح ہوا ہو۔ کیا آپ تسلیم کرتے ہیں کہ ریفرنس کی تیاری میں نقائص ہیں؟
جس پر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ جوڈیشل کونسل نے پڑتال کرنے کے بعد شوکاز نوٹس جاری کیا۔ صدر مملکت کو جومعلومات ملیں انھوں نے جوڈیشل کونسل کو بھیج دیں۔ ریفرنس کی تیاری میں کوئی نقص نہیں ہے۔
جمعرات کو دو گھٹے جاری رہنے والی سماعت میں وفاق کے وکیل فروغ نسیم نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ وہ 27 قانونی نکات پر دلائل دیں گے۔
عدالتی استفسار پر انہوں نے بتایا کہ صدر مملکت کی وکالت ڈپٹی اٹارنی جنرل سہیل محمود اور وزیراعظم کی وکالت ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان کریں گے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ عدالت کے سوال ریفرنس کی مبینہ بدنیتی پر ہیں۔ عدالت نے ریکوئری یونٹ کے کردار پر اور قانونی سوال کیے ہیں۔
’شکایت صدر مملکت کو بھیجنے کی بجائے اے آر یو کو پذیرائی کیوں دی؟ یہ بتا دیں کہ عدالت عظمیٰ نے اے آر یو بنانے کا حکم کہاں دیا؟‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
فروغ نسیم نے کہا کہ اے آر یو رولز آف بزنس کے تحت بنایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ میری یہ دلیل نہیں کہ عدالت کے حکم پر اے آر یو کو بنایا گیا، اثاثوں کو غیر قانونی طریقے سے ملک سے باہر لے جاناعوام کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ بیرون ملک سے لوٹے گئے اثاثے واپس لانا اے آر یو کے قیام کی وجہ بنی۔
جسٹس مقبول باقر نے وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب پر سوالات اُٹھاتے ہوئے کہا کہ شہزاداکبر کی اہلیت اور صلاحیت باقی جگہوں پر بھی نظر آنی چاہیے تھی۔
جسٹس یحیی آفریدی نے پوچھا کہ 28 اگست کو شہزاد اکبر معاون خصوصی بنے اور 28 اگست کو ہی ٹاسک فورس کے قواعد و ضوابط بھی بن گئے ایک ہی تاریخ میں سارا کام کیسے ہو گیا؟
جسٹس مقبول باقر نے سوال کیا صدر مملکت نے ریفرنس کے مواد پر اپنی رائے کیسے بنائی۔ جس پر فروغ نسیم نے بتایا کہ صدر مملکت پیشے کے اعتبار سے ڈینٹسٹ اور وزیراعظم کرکٹر رہے ہیں اور سیاست کی ہے۔ اس قسم کی سمریوں پرسٹیدیز اور متعلقہ وزارتوں سے رائے لی جاتی ہے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آرٹیکل 209 محض ایک آرٹیکل نہیں، یہ عدلیہ کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے ہے آرٹیکل 209 عدلیہ کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے ہے، ریفرنس کے مواد پر صدر کو اپنا ذہن اپلائی کرنا ہوتا ہے۔ ریفرنس فائل کرنا کوئی چھوٹا معاملہ نہیں ہے۔
’صدر مملکت آرٹیکل 48 کے تحت ریفرنس نا مکمل ہونے پر واپس بھیج سکتے ہیں۔ صدر مملکت ریفرنس بھجوانے کی ایڈوائس پر عمل کرنے کے پابند نہیں ہیں۔ صدر مملکت ایڈوائس پر ریفرنس کونسل کو بھجوانے کے پابند ہیں یہ دلیل غلط ہے۔‘
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ صدر مملکت کا کردار جوڈیشل کونسل کو ریفرنس بھجوانے پر بڑا اہم ہے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اے آر یو کے پاس یہ اختیار نہیں تھا کہ وہ آرٹیکل 209 کے تحت کاروائی کا فیصلہ کرسکتا ہے یہ بات کس کے دماغ میں آئی کہ یہ کیس جج کے مس کنڈیکٹ کا بنتا ہے؟
فروغ نسیم نے جواب دیا کہ اے آر یو نے جج کے خلاف 209 کی کارروائی کا نہیں کہا۔
جسٹس منیب اختر نے دوبارہ پوچھا کہ پھر حکومت پاکستان کی جانب سے کس نے کہا کہ یہ معاملہ مس کنڈیکٹ کا ہے؟
جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیے کہ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے اس معاملے کے نتائج بھی ہوں گے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ میرے خیال سے اس معاملے پر مس کنڈکٹ کا ریفرنس بنانے کا فیصلہ درست نہیں تھا۔ صدر مملکت کو اپنی رائے بنانے میں بھی قانون کا حوالہ یا قانون کی سپورٹ ہونی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ صدر مملکت کو کسی ایڈوایئس پر اتفاق کرنے یا نہ کرنے پر وجوہات بتانی ہوتی ہیں۔
عدالت نے مزید دلائل اور سوالات کے جواب کے لیے کیس کی سماعت پیر تک ملتوی کر دی ہے۔