اسلام آباد: پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی ترکی میں ہونے والے او سی آئی وزرائے خارجہ کے خصوصی اجلاس میں شرکت کریں گے۔
جمعرات کو دفتر خارجہ میں ہونے والی میڈیا گفتگو میں شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اجلاس میں اسلامو فوبیا پر غور کر کے متفقہ لائحہ عمل اپنایا جائے گا۔
گفتگو کے دوران انہوں نے گذشتہ جمعے کو کرائسٹ چرچ کی مساجد پر حملوں کے بعد کیے جانے والے اقدامات کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’نیوزی لینڈ کی حکومت اور وزیراعظم کے اقدامات اور موقف کو سراہتے ہیں۔’
ساتھ ہی انہوں نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ بھارت نے کرائسٹ چرچ سانحے کی مذمت تو کی لیکن مسلمان اور مسجد کا نام تک لینا گوارا نہیں کیا۔
ان کا کہن اتھا، ’بھارت او آئی سی میں نشست چاہتا ہے لیکن مسلمان اور مسجد کا نام لیتے ہوئے اس پر سکتہ طاری ہو جاتا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ چین کے حالیہ دورے میں پہلی دفعہ وزرائے خارجہ سطح پر سٹریٹجک مذاکرات ہوئے اور پلوامہ حملے کے بعد پاکستان کے اقدامات سے چینی قیادت کو آگاہ کیا گیا۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ حالیہ پاک بھارت کشیدگی میں چین ایک چٹان کی مانند پاکستان کے ساتھ کھڑا رہا ہے، ’چین پاکستان کا لازوال دوست ہے اور پلوامہ کے بعد ایک بار پھر ثابت ہو گیا کہ وہ ہر کڑے وقت میں ساتھ رہے گا۔‘
امریکی صدر کا بیان اور پاکستان کا ردعمل
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حالیہ میڈیا بیان میں کہا تھا کہ ’پاکستان کے ساتھ تعلقات میں بہتری آ رہی ہے اور جلد ہی امریکہ کی اعلیٰ قیادت پاکستانی قیادت سے ملاقات کرے گی۔‘
اس حوال سے گفتگو کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ سات ماہ پہلے امریکہ کے ساتھ تعلقات میں تناؤ کی بات ہو رہی تھی لیکن موجودہ حکومت اور امریکہ کے درمیان دو طرفہ تعلقات میں بہتری کے امکانات بڑھ رہے ہیں۔
انھوں نے کہا، ’میونخ میں میری ملاقات امریکی سینیٹرز سے ہوئی، اس ملاقات سے بھی پاک امریکہ تعلقات میں بہتری کا تاثر ملا۔‘
دنیا قومی ایکشن پلان پر پاکستان سے کیا چاہتی ہے؟
وزیر خارجہ نے کہا کہ دورہ چین میں نیشنل ایکشن پلان اور جیش محمد کے سربراہ مولانا مسعود اظہر پر بات ہوئی۔ چین نے مولانا مسعود اظہر پر مزید معلومات کے حصول کیلئے تکنیکی ہولڈ لگایا جو چین کا حق ہے۔
ان کا کہنا تھا، ’پاکستان اور چین کے مابین مشاورت جاری رہتی ہے۔ ان امور میں مزید بہتری آئے گی۔ اقوام متحدہ سلامتی کونسل کی پابندیوں سے متعلق کمیٹی پر رائے دینا درست نہیں۔‘
شاہ محمود قریشی نے مزید کہا، ’ہمیں علم ہے دنیا کیا چاہ رہی ہے اور ہماری قومی ترجیحات اور مفادات کیا ہیں۔ ہم دہشت گردی کی مالی معاونت، منی لانڈرنگ اور دیگر امور پر غور کر رہے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’نیشنل ایکشن پلان پر سانحہ آرمی پبلک اسکول کے بعد قومی اتفاقِ رائے قائم ہو چکا ہے۔ 20 نکاتی نیشنل ایکشن پلان پر تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین کے دستخط ہیں۔ پہلے مرحلے میں فوجی ایکشن مؤثر طریقے سے لئے گئے۔ دوسرے مرحلے میں اب سیاسی طور پر کام ہونا ہے۔ ‘