پشاور کے کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل اظہر شاہین نے 21 فروری کو جنوبی وزیرستان میں 3 محسود قبائل بالول زی، مان زی اور شمان خیل کے جرگہ سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ فوج اور سول انتظامیہ دونوں مل کر علاقے کی بحالی کے لئے سر توڑ کوشش کر رہے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’’ حکومت نے جنوبی وزیرستان کے لیے کثیرالجہت حکمت عملی اختیار کی ہے تاکہ تباہ شدہ انفراسٹرکچر کو دوبارہ تعمیر کر کے محسود قوم کی اپنے علاقوں کو واپسی جلد از جلد ممکن بنائی جا سکے۔ “
2009 میں آپریشن راہ نجات کے نتیجے میں محسود قبیلے کو اپنے علاقے سے بے دخل ہونے کو تقریباًً 10 سال کا عرصہ بیت گیا ہے، لیکن اب پاکستانی فوج کے مطابق آپریشن ضرب عضب نے دہشت گردی پر کاری ضرب لگا دی ہے اور جنوبی وزیرستان بہت حد تک رہنے کے لیے محفوظ ہو گیا ہے۔
انڈیپنڈنٹ اردو نے ’واپسی ‘ کے موضوع پر چند محسود خواتین سے بات چیت کی اور ان سے پوچھا کہ ان کی زندگی پر امن وقتوں میں کیسی تھی، اور اب اگر انھیں اپنے علاقے میں واپس جانا پڑ جائے تو ان کو کیسا لگےگا؟
بہلول زی قبیلے کی تابانہ بی بی سے جب اس سلسلے میں بات کی گئی تو پہلے تو انہوں نے یہ کہہ کر معذرت کر لی کہ انہوں نے کبھی اس طرح کا انٹرویو نہیں دیا لیکن پھر اپنے شوہر کے سمجھانے پر ہر سوال کے جواب میں چھوٹے چھوٹے جملوں میں بات کرتی گئیں۔
’’ہم چشمے سے پانی بھر کر لاتے تھے۔ کھیتوں میں کام کرتے تھے۔ پردے کا کوئی رواج نہیں تھا۔ گاؤں کے سارے لوگ ایک دوسرے کو جانتے تھے۔ پھر بھی مرد پرائی خواتین کے سامنے جانے سے گریز کرتے تھے۔ اور اگر کبھی غلطی سے کوئی سامنے آ بھی جاتا تھا، تو ہم آنکھیں نیچی کر لیتے تھے۔ خوشی کے موقع پر دنبہ ذبح کیا جاتا تھا۔جس کو تندور کی بڑی بڑی رو ٹیوں کے ساتھ پیش کیا جاتا تھا‘‘
انڈیپنڈنٹ اردو کی جانب سے دس سال باہر رہ کر واپس جانے کے احساسات کا پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا؛
’’ہمارے گھر تو تباہ ہو چکے ہیں۔ سنا ہے اب وہاں کچھ بھی نہیں ہے۔ جو مکانات ہیں وہ رہنے کے قابل نہیں ہیں۔ پتہ نہیں کب واپس جائیں گے ، لیکن خوشی تو ہوتی ہے “
جنوبی وزیرستان ہی سے تعلق رکھنے والی ایک 55 سالہ خاتون بیگم جان بھی ہیں ، جن کی شادی قبیلے سے باہر ہونے کے باعث انھیں بہت شروع ہی سے سابقہ فاٹا سے باہر رہنا پڑ گیا تھا۔ چونکہ والدین کا گھر وزیرستان میں ہی تھا لہذا آنا جانا لگا رہتا تھا۔ جب دہشتگردی کی لہر اٹھی اورجنوبی وزیرستان کے لوگوں خصوصاخواتین کو مسائل نے گھیر لیا تو بیگم جان باوجود خطرات کے ان کے حقوق کا دفاع کرنے اٹھ کھڑی ہوئیں۔
’’ پچھلے 10 سال میں سب کچھ بدل گیا ہے۔ ہمارے کلچر کو بہت نقصان پہنچ گیا ہے۔ پردے کا رواج نہیں تھا ، لیکن اب وزیرستان میں خواتین برقعہ پہنے نظر آتی ہیں۔جو بچے بچیاں پشاور ، اسلام آباد، کراچی اور دیگر شہروں میں رہنے کے عادی ہو گئے ہیں، وہاں کے سکولوں میں پڑھ رہے ہیں۔ وہ اب شاید وزیرستان میں رہنا پسند نہ کریں۔ اس وقت وزیرستان میں جو اکا دکا خاندان رہ بھی رہے ہیں ان کی زندگی بہت مشکل سے کٹ رہی ہے۔ بے روزگاری ہے، غربت ہے، صحت کے سہولیات نہیں ہیں۔ ‘‘
وزیرستان میں کچھ خاندانوں کی رہائش پر انہوں نے بتایا کہ 'جنوبی وزیرستان میں کچھ محسود خاندان خطرات مول کر واپس چلے گئے ہیں، لیکن ان کی تعداد بہت معمولی ہے۔ باقی لوگ تب تک واپس نہیں جائیں گے جب تک حکومت اور فوج ان کی حفاظت کی مکمل یقین دہانی نہیں کرا دیتے۔ خالی اعلانات کرنے اور بیانات دینے سے کچھ نہیں ہوگا۔ عملی طور پر کچھ کیا جائے ۔ عوام کو گھر بنا کے دئے جائیں، ہسپتال اور سکولوں کی سہولت دی جائے۔ تب ہی لوگ جا سکیں گے۔ “
بیگم جان نے اپنی بات کے آخر میں پرانے پرامن جنوبی وزیرستان کو یاد کرکے آنے والے وقتوں کے بارے میں ہنستے ہوئے ایک پشتو شعر کہا ؛
'نہ بہ دا میلہ وی، نہ بہ د بنوں بازارونہ' ۔ ترجمہ (نہ ہی اب وہ میلہ ہوگا، اور نہ ہی وہ رونق) ۔