سمجھوتہ ایکسپریس بم دھماکے میں ہلاک ہونے والوں کے لواحقین نے حکومت پاکستان سے ان کا مقدمہ عالمی عدالت میں لے جانے کا مطالبہ کیا ہے۔
انڈیا میں پنچ کولا کی قومی تفتیشی ایجنسی (این آئی اے) کی ایک خصوصی عدالت نے سمجھوتہ ایکسپریس بم دھماکے کیس میں سوامی اسیم آنند سمیت تمام چار ملزمان بری کر دیے ہیں۔
دہشت گردی کا یہ واقعہ لاہور اور دہلی کے درمیان چلنے والی ٹرین سمجھوتہ ایکسپریس میں 18 فروری 2007 کی رات رونما ہوا تھا۔
دھماکے میں ہلاک ہونے والوں کے لواحقین نے ان ملزمان کی بریت کے خلاف لاہور میں احتجاجی مظاہرہ کیا جہاں انھوں نے حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا کہ ان کے مقدمے کو عالمی عدالت میں لے جایا جائے تاکہ انھیں انصاف مل سکے۔
احتجاج مظاہرے میں شریک لاہور کے رہائشی محمد یاور، مسرت بی بی اور سرگودھا کے رہائشی مبشر حسن کا کہنا ہے کہ وہ ہلاک ہونے والے اپنے پیاروں کی تصاویر سینے سے لگائے جی رہے ہیں۔ وہ اس کیس کا عدالت میں ٹرائل غور سے دیکھتے رہے کہ شاید اس واقعہ کے ذمہ داروں کو عبرت ناک سزا ملے اور انہیں سکون حاصل ہو۔
تاہم ان کا کہنا ہے کہ ایسا نہ ہوا اور جب بھارتی عدالت نے اس مقدمہ کے ملزمان کو باعزت بری کیا تو ان کی بے چینی میں اضافہ ہو گیا۔
اس موقع پر انھوں نے اعلان کیا کہ وہ اس فیصلے کو نہیں مانتے بلکہ حکومت پاکستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ یہ مقدمہ عالمی عدالت میں چلایا جائے تاکہ انہیں انصاف مل سکے۔
متاثرہ خاندانوں نے مطالبہ تسلیم نہ ہونے پر اسلام آباد میں احتجاج کی بھی دھمکی دی ہے، جبکہ سمجھوتہ ایکسپریس متاثرین کمیٹی کے سربراہ رانا محمد عظیم کا کہنا تھا کہ سمجھوتہ ایکسپریس میں زندہ جلائے جانے والوں کے لواحقین کو ہر صورت انصاف دلایا جائے گا۔
سینیئر قانون دان افتخار اللہ ڈھلوں نے بھارتی عدالت کے فیصلے سے متعلق کہا کہ بھارتی سپریم کورٹ کا فیصلہ اگر متاثرین کو منظور نہیں تو اس کے خلاف نظرثانی کی اپیل کی جا سکتی ہے اور بھارتی عدالت پر عدم اعتماد ہونے پر مقدمہ عالمی عدالت میں بھی انصاف کے لیے پیش کیا جاسکتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انھوں نے کہا کہ بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے میں قانونی اور تکنیکی خامیاں بھی ہوسکتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس فیصلے کو قبول نہ کرنے کی ایک بڑی وجہ پاکستان اور بھارت کے عوام کا دونوں ملکوں کے اداروں پر اعتماد نہ ہونا بھی ہوسکتا ہے۔
احتجاجی مظاہرے میں شریک متاثرہ خاندان کے سربراہ رانا شوکت علی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ بھارتی سپریم کورٹ نے واقعہ کے چشم دید گواہان کے بیانات قلمبند ہی نہیں کیے اس واقعہ میں تباہ ہونے والی بوگی نمبر پانچ میں صرف وہ، ان کی بیوی اور ایک سالہ بیٹی زندہ بچے تھے لیکن انہیں گواہی کے لیے بھارتی عدالت نے کبھی طلب نہیں کیا اس بارے میں سپریم کورٹ کو درخواست بھی دی گئی تھی۔