پاکستان ایک نوجوان ملک ہے۔ اس لیے کے 70 سال قوموں کی تاریخ میں لڑکپن سے زیادہ نہیں ہے۔ ہم ابھی تک تعمیر کے ابتدائی مراحل میں ہیں۔ پچھلے 70 سال میں ریاست کے ستونوں مقننہ، عدلیہ اور حکومت تینوں نے کئی بڑی غلطیاں کی ہیں جن کا خمیازہ اس ملک کے عوام نے بھگتا ہے۔
فوج اور سول ریاستی محکمے جن کا کام عوام کی خدمت ہے وہ اپنی طاقت اور اختیارات کے تحفظ کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار رہتے ہیں۔ ان تمام ریاستی حصہ داروں میں طاقت کے توازن کا بھی فقدان ہے جس کی وجہ سے آئے دن نت نئے مسائل جنم لیتے رہتے ہیں۔
جسٹس فائز عیسی کے ریفرنس نے کئی پہلوؤں سے اس بات کی توثیق کی کہ موجودہ جمہوریہ ناکام ہو چکی ہے۔ اس ملک میں کسی پر بھی بےبنیاد یہاں تک کے غیرقانونی مقدمہ قائم کرنا بہت ہی آسان ہے خاص طور پر اگر آپ کو طاقتور لوگوں کی حمایت حاصل ہو۔ اس کے لیے کسی ٹھوس شواہد کی ضرورت نہیں ہے بس آپ کی نیت ہونی چاہیے کے کسی پر دباؤ ڈالنا ہے یا سزا دینی ہے۔
صرف یہی نہیں اس نظام میں معصوم کو اتنی تاخیر سے انصاف ملتا ہے کے غلط عدالتی فیصلہ میں سزائے موت دی جا چکی ہوتی ہے۔ آج تک پاکستان میں کسی سرکاری افسر کو اس بات پر سزا نہیں دی گئی کہ کسی معصوم پر غلط مقدمہ کیوں قائم کیا۔ یہی وجہ ہے کہ جھوٹے توہین رسالت، کرپشن اور دوسرے جرائم کے مقدمات بنتے رہتے ہیں۔ ناانصافی کا بول بالا ہے۔
تمام مہذب ممالک میں جرم ثابت ہونے سے پہلے ملزم کو مجرم نہیں سمجھا جاتا بلکہ معصوم تصور کیا جاتا ہے۔ پاکستان شاید دنیا کے ان چند ممالک میں ہے جہاں ریاستی ادارے ہر شہری سے ایسا برتاؤ کرتے ہیں جیسے وہ مجرم ہو، ملک کا غدار ہو یا سرکار کے پیسے لے کر بھاگ رہا ہو۔ انتہائی افسوس کی بات ہے کے تجربہ کار وکیل فرغ نسیم ریفرنس کی پیروی کے دوران اس بات پر اصرار کرتے رہے کے ثبوت حکومت نے نہیں دینے ہیں بلکہ جج نے دینے ہیں کہ انہوں نے کرپشن نہیں کی یعنی ان کی نظر میں جرم ہو چکا ہے مگر انہیں یہ ثابت کرنے کی ضرورت نہیں ہے بس ان کا کہہ دینا کافی ہے۔
جب ریاست کسی پر کوئی مقدمہ قائم کرتی ہے تو اس کا پہلا مرحلہ یہ ہوتا ہے کہ اٹارنی جنرل کا دفتر اس بات کو یقینی بنائے کے تمام قانونی لوازمات پورے ہیں، شواہد قانونی طور پر اکھٹے کئے گئے اور جرم کو ثابت کرتے ہیں اور اس مقدمہ کو قائم کرنے سے انصاف کو یقینی بنایا جا سکے گا۔ جسٹس فائز کے ریفرنس میں اس میں سے کسی ایک بھی چیز کا لحاظ نہیں رکھا گیا۔ غیر قانونی طور پر شواہد اکھٹے کئے گئے۔
صدر کے ذمہ یہ آئینی فرض تھا کے ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیجنے سے پہلے اس بات کو یقینی بنائیں کے قانونی تقاضے پورے ہوئے ہیں اور شواہد اس بات کو ثابت کرتے ہے۔ وہ اس میں مکمل ناکام رہے اور انہوں نے صدر کے عہدے اور وقار کو نقصان پہنچایا۔ صرف یہی نہیں بلکہ اس سے پہلے بھی کئی ایسے آرڈیننس پر انہوں نے دستخط کئے جن کی آئینی حیثیت مشکوک تھی اور انہیں بعد میں واپس لینا پڑا۔
ان کے اس عہدے پر رہنے کی قابلیت پر کئی سوال اٹھتے ہیں۔ یہ بات بھی سامنے آئی کے حکومتیں ماورائے آئین ادارے قائم کرتی ہیں اور اپنے پسندیدہ لوگوں کو اس میں اہم عہدوں پر فائز کرتی ہیں۔ ایسٹ ریکوری یونٹ ایسا ایک ہی ایک ادارہ ہے جس کے سربراہ نے اس قوم کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا ہوا ہے۔ کیا بنانا ریپبلک کی اس سے بڑی کوئی مثال قائم ہو سکتی ہے۔ تاہم عدالت کے مختصر فیصلے میں اس کا ذکر نہیں تھا جس پر شہزاد اکبر فخر کر رہے تھے۔
ایک ناکام اور ناکارہ ریاست کی ایک نشانی یہ بھی ہے کے وہ صرف طاقتور کے مفاد میں کام کرے اور شہریوں کو محکوم رکھے۔ پاکستان کا شہری جب پیدائش، موت اور کئی دوسری کاغذات کے لیے سرکاری دفتر جاتا ہے تو وہاں اس کی وہ درگت بنتی ہے کہ اللہ معافی۔ جج صاحب کی بیوی بھی جب عام شہری کی حیثیت سے ایف بی آر کے دفتر گئیں تو ان کے ساتھ وہی ہوا جو ہر شہری کے ساتھ روز ہوتا ہے۔ ایسا ملک جہاں سرکاری ادارے اپنے عوام کی عزت اور تکریم نہ کرتے ہوں کیا اس کے شہری انکم ٹیکس دینا چاہیں گے؟
میں کئی دفعہ آپ کو یہ بات بھی کہہ چکا ہوں کے پاکستان ایک ایسا ملک بن گیا ہے جہاں ایماندار اور قابل آدمی کے لیے کام کرنا انتہائی مشکل ہو گیا ہے۔ ہر موقع پر ایسے لوگوں کو پیچھے دھکیلا جاتا ہے اس لیے کہ یہ لوگ موجودہ کرپٹ نظام کے لیے خطرہ ہوتے ہیں۔
جسٹس عیسی کے ہر فیصلہ سے اتفاق کرنا ضروری نہیں لیکن اس بات پر سب متفق ہیں کے وہ اپنی آزادانہ سوچ، شواہد اور قانون کے مطابق فیصلے کرتے ہیں اور کسی دباؤ میں نہیں آتے۔ ان کے کچھ فیصلوں نے طاقتور حلقوں کو پریشان کیا ہے اور وہ انہیں سپریم کورٹ میں دیکھنا نہیں چاہتے۔ ریفرنس کے بارے میں جتنی معلومات مہیا ہیں وہ اسی طرف اشارہ کرتی رہیں کے ریفرنس کرپشن نہیں بلکہ کسی اور وجہ سے قائم ہوا۔
مقدمہ کے دوران ایک دفعہ پھر قوم میں تقسیم نظر آئی۔ مجھے سوشل میڈیا کے ٹرول سے یہ امید نہیں کہ وہ شعور، اصول، قانون یا اخلاقیات کو سامنے رکھتے ہوئے بات کریں گے اس لیے انہوں نے جو کچھ کہا وہ ردی کی ٹوکری کا حصہ بن گیا۔ مگر انتہائی پڑھے لکھے لوگ بھی یہ کہتے ہوئے پائے گئے کے جج منی ٹریل دو۔ جب منی ٹریل دے دی گئی تو اعتراض یہ ہوا کے پہلے کیوں نہ دی۔ جو ماننا نہیں چاہتے ان کے پاس مسترد کرنے کا جواز ہمیشہ موجود ہوتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
میں نے ہمیشہ یہ بات کہی ہے کہ مملکت کے ہر شہری کو اپنی آمدن کا حساب دینا چاہیے لیکن کیا اس مملکت میں سب اپنا حساب دے رہے ہیں؟ کیا پلاٹ اور جائیدادیں کاغذات میں اس قیمت پر بک رہی ہیں جو ادا کی جاتی ہے۔ ہم کسے بیوقوف بنا رہے ہیں؟ اس ملک میں ہرشخص کو ٹیکس کے گوشوارے داخل کرنے چاہیے اور اس پر جو ٹیکس بنتا ہے وہ دینا چاہیے اس کے بعد کسی منی ٹریل کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم تو اس دوڑ میں لگے رہتے ہیں کے بااثر طبقہ کو زیادہ سے زیادہ مراعات ملیں۔ ہر سال کئی دفعہ ٹیکس چوری کرنے والوں کو ایمنسٹی دی جاتی ہے۔ جج فائز عیسی کو یہ اعزاز حاصل ہے کے وکالت کرتے ہوئے وہ ٹیکس دینے والوں کی فہرست میں ممتاز رہے ہیں۔
مقدمہ کی پیروی میں کچھ نئی روایات قائم ہوئیں۔ جسٹس عیسی خود عدالت میں عرضی گزار کے طور پر پیش ہوئے۔ انہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا ان کے وکیل عدالت کو بتا سکتے تھے کے ان کی اہلیہ شہادت دینا چاہتی ہیں۔ خود عدالت میں جا کر انہوں نے مقدمہ پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی جو انہیں زیب نہیں دیتا۔ انہیں چاہیے اپنے اس رویہ پر سپریم کورٹ سے معافی کی درخواست کریں جسے ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے۔
کچھ لوگوں نے یہ بھی کہا کے ویڈیو لنک پر شہادت کیوں لی گئی اور جنرل مشرف اور حسین حقانی کو بھی ایسی سہولت کیوں نہ دی گئی۔ ان دونوں میں فرق ہے۔ مشرف اور حقانی دونوں پر مقدمات تھے جبکہ جسٹس فائز عیسی کی بیوی پر مقدمہ نہیں تھا بلکہ وہ شہادت دے رہی تھیں۔
پاکستان کی عدلیہ عوام میں اتنا ہی احترام اور عزت رکھتی ہے جتنا کہ سیاستدان یعنی دونوں پر قوم کو اعتماد اور اعتبار نہیں ہے کے وہ اپنے مفاد سے زیادہ قوم کا مفاد سامنے رکھیں گی اور اس کے لیے کسی دباؤ کو قبول نہیں کریں گے۔ لوگ یہی سمجھتے ہیں کے عدلیہ انصاف نہیں دیتی بلکہ نظریہ ضرورت اب تک زندہ ہے۔
جسٹس فائز عیسی خوش قسمت ہیں کہ مقدمے کا فیصلہ ان کے حق میں آیا۔ دیکھنا یہ ہے کے کیا غلط مقدمہ بنانے والوں کو کوئی سزا بھی ملے گی یا نہیں؟ عدلیہ کی ساکھ بحال کرنے میں بہت وقت لگے گا۔ مجھے اس جمہوریہ سے کوئی امید نہیں اس لیے اس کی عدلیہ سے بھی مایوس ہوں۔ ریفرنس کے خلاف مقدمہ کی سماعت کے دوران میں جسٹس عیسی کی حمایت میں متحرک رہا اس لیے کے معلومات کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا کے یہ ریفرنس بدنیتی پر مبنی ہے۔