جسٹس فائز عیسی کے حق میں فیصلہ آ گیا۔ سول سوسائٹی اور وکلا کی بڑی تعداد اس سے مطمئن ہوئی تاہم سرکاری کیمپ میں ابھی خاموشی چھائی ہوئی ہے۔
یہ کوئی ایسی بےمعنی خاموشی نہیں یقینا اگلا لائحہ عمل تیار کیا جا رہا ہوگا اور کچھ نہیں تو شام تک ایک عدد پریس کانفرنس بھی سپریم کورٹ کے فیصلے کو اپنا سا رنگ دینے کے لیے کر لی جائے گی۔ لیکن اس فتح سے کیا جسٹس فائز عیسی نامساعد حالات کے گھنے جنگلوں میں سے نکل آئے ہیں؟ یقینا نہیں ان کی مشکلات شاید ابھی ختم نہ ہوئی ہوں۔ ابھی اسٹبلشمنٹ کے پتے ختم نہیں ہوئے۔ یقینا اگلی چال کے لیے سوچ بچار شاید مقدمے کی سماعت دیکھتے ہوئے شروع کر دی گئی ہو۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سرکاری وکیل کے نہ ختم ہونے والے ’آرگومنٹس‘ کے تناظر میں وقت لگا، وسائل بھی خرچ ہوئے، فروغ نسیم صاحب کو دوسری مرتبہ اس حکومت میں اپنی وزارت چھوڑنی پڑی (بس چھٹی ہی لینی پڑی)۔ اس ناکامی کے بعد کیا وہ دوبارہ واپس وزیر قانون رہنے کا اخلاقی جواز رکھیں گے یا نہیں؟ ویسی خود ہی چھوڑ دیں تو شاید ان کے لیے بہتر ہوگا۔ ویسی بھی سماعت کے دوران انہیں بار بار یہ احساس دلانے کی کوشش کی گئی کہ وہ غلط بس پر سوار ہیں۔ لیکن یہ ایسی ظالم بس ہے کہ اس پر ایک مرتبہ کوئی چڑھ گیا تو پھر آدھے راستے یہ بھی اترنے نہیں دیتی۔
فروغ نسیم سے بڑھ کر یہ وزیر اعظم عمران خان کے لیے شاید اہم سوال ہے کہ انہیں اس جسٹس فائز عیسی مخالف بس پر کس نے سوار کروایا۔ کیا اب وہ ان سے وضاحت طلب کریں گے؟ کوئی ہیڈ رول ہوں گے یا نہیں بس ایک چھوٹی سے ناکامی تصور کر کے آگے بڑھ جائیں گے۔ ایک بات تو سرکاری کیمپ کو اب سمجھ آ جانی چاہیے کہ ان کا پالا کسی اناڑی وکیل یا جج سے نہیں بلکہ جسٹس فائز عیسی سے پڑا تھا۔ عدلیہ نے اپنا وقار بحال رکھا۔ جیت قانون کی ہوئی ہے۔ فیصلے پسند نہ آئیں تو جج نہیں وکیل بدلے جاتے ہیں۔