ہادیزا حسب معمول سکول سے گھر لوٹ رہی تھیں جب اچانک لوگوں نے انہیں دیکھ کر ’کمسن دلہن، کمسن دلہن‘ پکارنا شروع کر دیا۔
14 سالہ ہادیزا کو بالکل اندازہ نہیں تھا کہ وہ کس بارے میں بات کر رہے ہیں۔ وہ گھر پہنچیں تو اپنی ماں کوبھی روتے پایا۔ ہادیزا نے اپنی بہن سے بھی اس بارے میں پوچھا تاہم کسی نے انہیں تسلی بخش جواب نہیں دیا، یہ ہادیزا کی بطور ’کمسن دلہن‘ نئی زندگی کا آغاز تھا۔
نائجرمیں ہر سال ایک کروڑ 20 لاکھ لڑکیوں کی 18 برس کی عمرتک پہنچنے سے پہلے ہی شادی کر دی جاتی ہے اور یہ تعداد دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔
مغربی افریقہ کے اس ملک میں 76 فیصد لڑکیوں کو 18 سال کی عمر تک بیاہ دیا جاتا ہے جبکہ 28 فیصد لڑکیوں کی شادی 15 برس کی عمر میں کرا دی جاتی ہے۔ ملک کے بعض حصوں میں دس سال یا اس سے بھی کم عمر لڑکیوں کی شادیاں عام ہیں۔
ہادیزا کا تعلق نائجر کے تیلابیری علاقے سے ہے اور ان کا اصل نام رازداری کی خاطریہاں تبدیل کر دیا ہے۔ 2010 میں شادی کے بعد کمسن دلہن نے بدترین حالات کا سامنا کیا اور بالآخروہ اس زندگی سے چھٹکارا حاصل کرنے میں کامیاب بھی ہوئیں۔
ہادیزا کا کہنا ہے کہ ان کے چچا نے قرض معاف کرانے کے عوض ان کا رشتہ طے کر دیا تھا۔
شادی کا مطلب ان کے خوابوں کا خون تھا کیونکہ وہ سکول جانا چاہتی تھیں تاکہ تعلیم مکمل کر سکیں۔
وہ اتنی خوف زدہ تھیں کہ شادی کی اطلاع ملنے کے دو دن بعد ہی گھر سے فرار ہو کر جنگل میں روپوش ہو گئیں۔
تین روز بعد ایک مقامی مچھیرے نے انہیں ڈھونڈ لیا۔ وہ اس وقت تک بھوک اور نقاہت کے باعث قریب المرگ ہو چکی تھیں۔
ہادیزا کے بھائی اسے واپس گھر لے آئے جس کے فوری بعد اس کی شادی بڑی عمر کے مرد سے کروا دی گئی۔
شادی کے بعد ہادیزا نے کئی بار بھاگنے کی کوشش کی اور کئی ناکام کوششوں کے بعد انہیں احساس ہوا کہ شاید وہ کبھی بھی اس زندگی سے فرار حاصل نہ کر پائیں گی۔
ہادیزا کے چچا نے بھی انہیں دھمکایا کہ بھاگنے کی صورت میں ان کی والدہ اور بہنوں کی زندگیاں برباد ہو جائیں گی۔ اپنے خاندان کی خاطر وہ یہ قربانی دینے کے لیے تیار ہو گئیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وہ بتاتی ہیں کہ کیسے ان کا شوہر انہیں ہزاروں میل دور دوسرے شہر لے گیا جہاں ان کی زندگی کسی ڈراؤنے سپنے سے کم نہ تھی۔ ہادیزا کا شوہر ہر رات انہیں اپنی جنسی ہوس کا نشانہ بناتا اور انکار کی صورت میں ان پر تشدد کرتا۔
انہیں کئی کئی دن بھوکا رکھا جاتا اور مار پیٹ روز کا معمول بن گئی۔
’میں وہ رات کبھی بھلا نہیں پاؤں گی جب میرے شوہر نے اپنے چار دوستوں کے ہمراہ میرے ساتھ شرمناک حرکت کی اور مجھ سے میرا کنوارہ پن چھین لیا۔‘
اپنے خاندان اور دوستوں سے ہزاروں میل دور ہادیزا کی زندگی مزید اذیت ناک بن گئی جب انہیں پتہ چلا کہ وہ امید سے ہیں۔
نائجر میں کم عمری میں شادی کے بعد بچوں کی پیدائش سنگین صورتحال اختیار کر گئی ہے جہاں کمسن لڑکیاں حمل اور زچگی کی پیچیدگیوں کا شکار ہو کر موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق نائجر میں کمسن لڑکیاں میں اسقاطِ حمل کی شرح 86 فیصد سے زیادہ ہے جبکہ ان کم عمر ماؤں سے جنم لینے والے بچوں کو بھی صحت کے سنگین مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ اگر کم عمری میں شادی پر قابو پالیا جائے تو صرف نائجر میں 21 لاکھ نوزائیدہ بچوں کی جان بچائی جا سکتی ہے۔
ہادیزا کا پہلا بچہ بھی انہیں مسائل کا شکار ہو کر ہلاک ہو گیا۔ شادی کے تین سال بعد ہادیزا نے دوسرے بچے کی پیدائش کے بعد فرار ہونے کا فیصلہ کیا۔
اپنے شوہر کے گھر سے بھاگنے کے بعد ہادیزا نے اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے برائے جنسی و تولیدی صحت کے دفتر میں پناہ لی اور پھر اسی ادارے میں بھرتی ہو کر ملک میں اپنی جیسی خواتین کی مدد کے لیے کام کرنا شروع کر دیا۔
ہادیزا نے ساتھ ساتھ تعلیم حاصل کرنا شروع کی اور اب وہ مزید پڑھنے کے لیے ترکی، تیونس یا مراکش جانا چاہتی ہیں۔