بریگزٹ ابھی نہیں ہوا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ دوسرا وزیر اعظم اس کا شکار ہو گیا ہے۔ ٹریزا مے کے تیزی سے وزیر اعظم بننے میں برطانیہ کے یورپ سے نکلنے نے اہم کردار ادا کیا – اب وہ اسے اپنے جانے کا ذمہ دار قرار دے سکتی ہیں۔
ابھی تفصیلات مبہم ہیں، لیکن مے نے اشارہ دے دیا ہے کہ وہ بریگزٹ مذاکرات کے آئندہ دور کے لیے اس عہدے پر نہیں رہیں گی۔ انہوں نے وعدہ کیا ہے کہ اگر اراکین پارلیمان ان کی ڈیل کے لیے نئی ووٹنگ میں حمایت کرتے ہیں تو وہ چلی جائیں گی۔ یہ کہنے کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ یہ نہیں چاہتی تھیں – جیسا کہ انہوں نے بدھ کی رات اراکین پارلیمان کو بتایا: ’میں اپنا یہ عہدہ منظم بریگزٹ حاصل کرنے کی خاطر وقت سے قبل چھوڑنے کو تیار ہوں۔‘ لیکن یہ واضح رہے کہ نمبر 10 میں توقع سے کم قیام کی ذمہ دار وہ خود ہیں۔
وزیر اعظم کی بریگزٹ پر پالیسی مشکل اور سمجھوتے اور نرمی سے عاری تھی۔ وہ کئی ماہ تک اس بےمعنی جملے سے جڑی رہیں کہ ’بریگزٹ کا مطلب بریگزٹ‘ ہے اور جب بالآخر سمجھ آئی تو جنوری 2017 کو لینکاسٹر ہاؤس میں تقریر میں انہوں نے اپنی جماعت کی بریگزٹ کی جانب جھکاؤ برقرار رکھا اور ڈیڑھ کروڑ افراد کو نظر انداز کر دیا جنہوں نے یورپ کے ساتھ رہنے کے حق میں ووٹ دیا تھا۔
ان کی ’کوئی ڈیل نہ ہونا کسی بری ڈیل سے بہتر ہے‘ کی حکمت علمی اور یورپ کی بڑھتی طاقت کے مخالف ڈیوڈ ڈیوس کو بطور بریگزٹ سیکریٹری تعینات کرنے نے برسلز کے ساتھ مذاکرات کے دوران ہمہ وقت جارحانہ رویہ رکھا۔
ان کی ہدایت پر حکومت کو حتمی معاہدے پر معنی خیز ووٹ کے لیے ایوان زیریں گھسیٹا گیا۔ ان کا اپریل 2017 میں انتخابات کروانے کے فیصلہ بغیر کسی سوچ سمجھ کے تھا، جس کا بظاہر مقصد مزید اختیارات حاصل کرنا تھا تاکہ وہ ایک ایسا بریگزٹ ڈکٹیٹ کرسکیں جو ان کے ڈاونیگ سٹریٹ میں بحیثیت وزیر اعظم 2016 میں پہلے روز کے اتحاد کے پیغام سے یکسر مختلف تھا۔
مے کی 2017 کی انتخابی مہم آمرانہ تھی – جو ڈیلی میل کے اس صفحہ اول کے دعوی کے قریب تھی جس میں اس نے لکھا کہ وہ ’تخریب کاروں کو کچل دیں گی‘۔
اور جب یہ معلوم ہوا کہ انہوں نے ٹوری اکثریت انتخابات میں کھو دی ہے، مے کو ’ہنگ‘ یا معلق پارلیمان سے پیچھے ہٹ جانا چاہیے تھا – جو یقینا ہارڈ بریگزٹ اور ان کے ’مضبوط اور مستحکم‘ ہونے کے موقف کے خلاف ایک ووٹ تھا۔
اس کے برعکس انہوں نے ایسے کام جاری رکھا جیسے کہ انہیں شاید لینڈ سلائڈ کامیابی ملی ہے۔ پارلیمان کے ساتھ کوئی مشاورت نہیں کی گئی، کوئی اتفاق رائے حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ برسلز سے گذشتہ نومبر میں انخلا کا معاہدہ پانے کے بعد ان کی کنزرویٹو جماعت کا بریگزٹیر دھڑا ان کے خلاف ہو گیا اور انہیں عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے ہٹانے کی کوشش کی – جہاں وہ جیت گئیں۔
اس موقع پر مے اپنے آپ کو یورو مخالفین سے آذاد کروا سکتی تھیں اور دارالعوام میں اپنی ڈیل یا ایسے مسودے کے لیے جو وسیع حمایت حاصل کر سکتا تھا پر اتفاق رائے کی کوشش کر سکتی تھیں۔ اس کے برعکس وہ اپنے موقف پر ڈٹی رہیں کہ اراکین کو یا تو ان کی ڈیل کی حمایت کرنا ہو گی یا پھر کوئی ڈیل نہیں ہو گی۔
ایوان زیریں میں دو مرتبہ ڈیل پر شکست اور ان کی حکومت کی جانب سے پارلیمان کی تذلیل کے باوجود وہ ٹس سے مس نہیں ہوئیں۔ کل کی انڈیکیٹو ووٹ جسے مے حکومت نے آخری لمحات میں روکنے کی کوشش کی ایوان کے لیے پہلی موقع تھا کہ وہ بریگزٹ کا آخر مطلب کیا ہے پر بحث شروع کرسکے – برطانیہ کی جانب سے یورپی اتحاد سے علیحدگی کے ووٹ کے 1006 روز بعد۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مے نے بریگزٹ ڈیل کے بند ہونے سے متعلق کسی بھی موقعے پر اس کی ذمہ داری لینے سے انکار کیا۔ یہ واضح تھا ان کے گذشتہ ہفتے ڈاؤننگ سٹریٹ میں دیے گئے بیان سے جس میں انہوں نے اراکین کو عوام کے آمنے سامنے لا کھڑا کیا۔ یہ دوبارہ چیکرز میں ہوا جب انہوں نے بریگزٹیر کے پوچھنے پر اپنے جانے کا ٹائم ٹیبل دینے سے انکار کیا۔
اس ہفتہ ایک وزیر نے کہا کہ جس طریقے سے مے کو تنگ کیا گیا ہے وہ اگر کوئی مرد وزیر اعظم ہوتا تو شاید اراکین ایسا نہ کرتے۔ میں نہیں سمجھتی کہ یہ درست ہے۔ ہاں مارگریٹ تھیچر اپنے وزرا کے دباؤ کی وجہ سے گئیں، لیکن انہوں نے کسی کی نہ سنی اور نہ کوئی نرمی دکھائی۔
مرد وزرائے اعظموں کو اپنوں نے ڈسا۔ ٹونی بلیئر کو گورڈن براؤن نے، گورڈن براؤن کو بلیرائٹ وزرا نے، ڈیوڈ کیمرون کو اپنی ہی جماعت کے یورو مخالفین نے۔ جو بات مے اور تھیچر کے بارے میں مشترک ہے – عورتیں جو مردوں کی اکثریت والی سیاست میں اونچے ترین عہدے تک پہنچیں ۔ وہ ان کا تبدیلی اور سمجھوتے کے مخالف ہونا ہے کیونکہ انہیں ’زنانہ‘ خصلتیں سمجھا جا سکتا ہے۔ شاید وہ سمجھتی تھیں کہ انہوں نے کچھ ثابت کرنا ہے۔
دراصل سیاسی سمجھ بوجھ رکھنا والا کوئی بھی سیاست دان چاہیے مرد یا عورت ٹریزا مے سے زیادہ بہتر انداز میں برطانیہ کو بریگزٹ کے دورازے تک پہنچا سکتا تھا۔
سیاسی قیادت کا مطلب طاقت اور استحکام ہے – اور اس کا نرم اور اتفاق رائے حاصل کرنا بھی ہے ایک ایسے وقت جب آپ کا مرکزی مشن مشکل میں ہے۔ مے نے اپنے اراکین کو 1922 کمیٹی میں گذشتہ رات بتایا: ’میں نے موڈ دیکھ لیا ہے۔ میں راستے میں کھڑی نہیں ہوں گی۔‘ ان کی موڈ سمجھنے میں اب تک ناکامی بل آخر ان کے گرنے کا سبب بنا۔
© The Independent