راولپنڈی میں 29 جون کو صدف زہرہ کی اندوہناک موت کی تفتیش کی جا رہی ہے کہ انہیں ان کے شوہر نے گلا گھونٹ کر قتل کیا یا انہوں نے اپنی موت نما زندگی سے تنگ آ کر اپنی جان لے لی۔
صدف زہرہ ایک مقامی تعلیمی ادارے میں پڑھاتی تھیں، ایک سالہ بچی کی ماں تھیں اور ان کا شوہرعلی سلمان علوی، جن پر ان کے قتل کا الزام ہے، ایک ٹی وی چینل پر پروڈیوسر تھے۔ جو بات تفتیش سے پہلے ہی واضح ہے وہ یہ ہے کہ نہ صرف صدف کو اس حال تک ان کے شوہر نے پہنچایا بلکہ ہزاروں لاکھوں لڑکیوں اور عورتوں کی موت نما زندگی کے پیچھے یہی ذہنیت کارفرما ہے جسے صدیوں سے پدرشاہی نظام میں پالا اور پوسا جا رہا ہے۔
یقینی طور پر اسے بدلنے کے لیے ایسے قانونی اور معاشرتی ڈھانچے کی تشکیل لازمی ہے جو عورتوں کے بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنائے لیکن ایسے قانونی اور معاشرتی ڈھانچے کی تشکیل، ترویج اور پائیداری اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک پدرشاہی ثقافت، اخلاقیات اور رسم و رواج کو تبدیل نہ کیا جائے۔
ہر اندوہناک واقعے کے بعد آج کل کے ڈیجیٹل عہد میں عوامی ابال سامنے آتا ہے لیکن چند دنوں بعد یہ ابال پانی کے بلبلے کی طرح بیٹھ جاتا ہے۔ زندگی کی رفتار اتنی تیز ہے کہ چند دنوں بعد نہ لوگوں کو یہ واقعہ یاد رہتا ہے اور نہ اس کی تفصیلات۔ ماسوائے ان خاندانوں کے جنہیں یہ دکھ آخری وقت تک سہنا ہوتا ہے باقی لوگ اپنی زندگی میں مصروف ہو جاتے ہیں۔
اگر تفتیش سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ سلمان علوی نے واقعی اسے قتل کیا ہے تو اسے اس کی سزا ضرور ملنی چاہیے۔ اسے بات کا کوئی فائدہ نہیں ملنا چاہیے کہ وہ حکمران جماعت کے ٹرول کے طور پر کام کرتا رہا ہے۔ اس سے بھی زیادہ اہم بات آج کی زندہ ہزاروں لاکھوں صدف زہراؤں کوبچانا زیادہ اہم ہے۔
تمام تر گفتگو کی تان یہاں پر آ کر ٹوٹتی ہے کہ اسے کیسے تبدیل کیا جائے۔ قانون پہلے بدلے جائیں یا ثقافتی ماحول اور اخلاقیات کے اس فرسودہ نظام کو پہلے دفن کیا جائے۔ کیا اول ہے اور کیا ثانی۔ اس سے پہلے کہ ہم اس پر بات کریں ضروری ہے کہ ہم پہلے مسئلے کو سمجھیں اور اس کی بنیاد کو سمجھیں۔
عورتیں ہزار ہا سالوں سے پیداواری عمل سے دور کی گئیں اور اسی وجہ سے وہ خاندان کی سربراہی سے محروم ہوئیں۔ ہزارہا سالوں سے معاشرتی نظاموں کی تبدیلی کے باوجود ہر نئے نظام میں پدرشاہی نظام قائم رہا۔ اسی وجہ سے تمام سماجی نظاموں میں مرد حاوی رہے ہیں۔ عورتوں کی سماجی حیثیت دست نگر اور زیادہ سے زیادہ معاون کی رہی ہے۔
یہ صرف سرمایہ دارانہ نظام کی آمد کے بعد ہی ممکن ہوا ہے کہ عورتیں پیداواری عمل میں واپس آ سکیں۔ لیکن سرمایہ دارانہ نظام کی آمد کو کئی سو سال گزرنے کے باوجود آج بھی عورتیں قبل از سرمایہ دارانہ دور کی پدرشاہی کا شکار ہیں۔
پدرشاہی کی مادی بنیاد، معاشی ڈھانچہ تبدیل ہونے کے باوجود پرانا فرسودہ ثقافتی ڈھانچہ اور اخلاقیات اب بھی باقی ہے۔ یہ خود بخود اور خود کار نظام کے ذریعے تبدیل نہیں ہو گا۔ اسے تبدیل کرنا ہو گا۔
پاکستان کی سات دہائیوں سے زائد تاریخ بہادر اور ذہین خواتین سے بھری پڑی ہے لیکن اس کے باوجود خواتین کے خلاف زہریلی اور منفی سوچ معاشرے کے ہر پہلو میں صاف نظر آتی ہے۔ اس زہر کی شروعات گھر اور خاندان سے ہوتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں گھر کے اندر ہی لڑکیوں اور خواتین کی حیثیت اور کام کو کم اہم سمجھا جاتا ہے۔
گھر کے اندر جب ماں، باپ، بھائی اور باقی رشتے دار لڑکیوں کو پیچھے رکھنے اور کمتر سمجھنے کی ترغیب دیں گے تو ایسے میں خاص طور پر لڑکوں کے اندر بچپن سے ہی ایسی ذہن سازی کی جاتی ہے جس کا مقصد ایسے مرد کی تشکیل ہے جو عورتوں کو نیچا دکھانے، بیوقوف بنانے، محکوم رکھنے، دبا کر رکھنے اور اپنی آسائش، تفریح، جنسی لذت اور ایک نوکرانی اور غلام رکھنے کو زندگی کا معمول سمجھتا ہے۔
جب لڑکوں کے ناز نخرے اٹھائے جائیں، ان کا ہر کام مائیں اور بہنیں کریں اور انہیں گھر کے کسی کام کاج میں شریک نہ ہونا پڑے تو گھر اور خاندان ہی وہ نرسری ہیں جہاں پدر شاہی کا بوٹا جنم لیتا ہے۔ سکول، کالج، یونورسٹی اور پھر کام کاج کی جگہوں پر اس ذہنیت کو پختہ ہونے کا موقع ملتا ہے۔ اس وقت تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔
ہمارے مذہبی عناصر بھی اس پدسری نظام کو مزید پختہ کرتے ہیں۔ ویسے تو ہمارے علما یہ بتاتے نہیں تھکتے کہ ہمارے مذہب میں خواتین کا بے حد احترام کیا جاتا ہے لیکن جب بھی عورتوں کے خلاف مظالم کے خاتمے کے لیے کسی قسم کی قانون سازی کی کوشش کی جاتی ہے تو سب سے پہلے مولوی حضرات ہی اس کی مخالفت میں آ جاتے ہیں۔
دنیا بھر میں 18 سال سے کم عمر کے لڑکے لڑکیاں بچے شمار ہوتے ہیں لیکن 18 سال سے کم عمر کی لڑکیوں کی شادی کے خلاف قانون سازی کی سب سے زیادہ مخالفت یہی مذہبی حلقہ کرتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پدرسری نظام کے تحفظ اور فروغ میں ہماری ثقافتی مصنوعات بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ ہمارے ڈرامے، فلمیں، فیچرز، افسانے، شاعری اور ذرائع ابلاغ، ہماری اخلاقیات اور سماجی رویوں پر اثرانداز ہوتی ہیں۔ جب ڈراموں اور فلموں میں گھریلو تشدد دکھایا جائے اور خواتین پر خاندان کو برقرار رکھنے کا بوجھ ڈال کر انہیں خاموش رہنے کی ترغیب دی جائے تو اس سے اس پُرتشدد کلچر کو فروغ ملتا ہے۔ اسی ثقافتی ماحول میں مردوں کے ہزار معاشقوں کو مردانگی سمجھا جاتا ہے جبکہ اس کی شکار خواتین پر ظلم و تشدد کو قبولیت ملتی ہے۔
ہمارے ہاں سرمایہ داری کے آنے کے بعد خاص طور پر شہری علاقوں میں خواتین پیداواری عمل میں شریک ہو رہی ہیں لیکن اکثر جگہوں پر وہ اہم، کلیدی اور سربراہی کرنے سے محروم ہیں۔ ایک جیسے کام پر خواتین کو ایک جیسا معاوضہ نہیں ملتا۔ بہت جگہوں پر شادی شدہ عورتوں سے امتیازی سلوک عام ہے۔
2004 کے بعد پاکستان کے الیکٹرانک میڈیا میں بہت ترقی ہوئی ہے لیکن اس ترقی میں بھی خواتین اہم حیثیت سے محروم ہیں۔ پاکستان کے اینکرز کلب میں خواتین کو کلیدی حیثیت حاصل نہیں ہے۔ ٹی وی چینلوں پر آج بھی ڈائریکٹر نیوز، ڈائریکٹر پروگرام، ایڈیٹراور مینیجنگ ڈائریکٹر جیسی آسامیوں پر خواتین ناپید ہیں۔
آج بھی ٹی وی چینلوں پر خواتین کو ملازمت دینے سے پہلے بیمار ذہنیت کے مرد اولیت ان خواتین کو دیتے ہیں جو ان کے جنسی ذوق کی تسکین کر سکتی ہوں۔ ملازمت سے قبل ان کا کم عمر ہونا، پتلا ہونا، سفید چمڑی کا حامل ہونا اور خوش شکل ہونا اولین شرط سمجھا جاتا ہے اور ان کا عقل مند، تعلیم یافتہ، ہنرمند، بہادر ہونا اہم نہیں سمجھا جاتا۔
آج بھی خواتین کو ’آئی کینڈی‘ کے طور پر لیا جاتا ہے تاکہ چینلوں پر ان کی شکل بیمار ذہنیت کے مردوں کے لیے پر کشش ہو۔
مہذب دنیا عرصہ ہوا ان چیزوں سے دور جا چکی لیکن ہمارے ہاں خواتین کے لیے یہی معیار ہے۔ اس لیے بیچاری لڑکیاں آج بھی ان چینلوں کے میک اپ رومز میں گھنٹوں بیٹھ کر اپنے آپ کو ان بیمار ذہنیت کے لوگوں کے لیے پرکشش بنانے کے نسخوں پر کام کرتی رہتی ہیں۔ یہ ماحول خواتین میں مردانہ کنڈیشننگ کی وجہ بنتا ہے۔ عورتیں اس پورے ماحول کو نارمل سمجھنے لگتی ہیں اور اس روش سے انحراف سماجی بغاوت قرار دیا جاتا ہے۔
فاطمہ جناح سے لے کر بےنظیر بھٹو اور ملالہ یوسفزئی تک ہماری خواتین نے بہادری اور ذہانت کی اعلیٰ مثالیں قائم کی ہیں لیکن انہیں بھی اپنے وقتوں میں انتہائی غلیظ اور زہریلے پروپیگنڈا کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
ہماری خواتین خاموشی اور تشدد کے اس کلچر کا سامنا کرتی رہیں گی جب تک تبدیلی خاندان کے اندر نہ پیدا ہو اور جب تک اس کلچر کے خلاف ہمارے دانشور، ڈراما نگار، شاعر، فنکار اور سیاست دان متحد اور یک آواز ہو کر اپنے اپنے شعبوں میں آواز بلند نہیں کرتے، جب تک گھر، سکول اور کام کی جگہوں پر خواتین اور لڑکیوں کے خلاف اس امتیازی کلچر کو ختم نہیں کیا جاتا تب تک صدف زہرہ جیسی خواتین ایسے ہی بیدردی کے ساتھ قتل ہوتی رہیں گی۔
عورت دشمن کلچر کا خاتمہ بھی ضروری ہے اور خواتین کے تحفظ کے لیے بہتر قوانین بننا اور ان پر عمل درآمد کروانا بھی ضروری ہے۔ یہ سب ایک ساتھ کرنا ہو گا۔