وزیر اعظم عمران خان اپنی ہر تقریر کا آغاز اور اختتام کرپشن پر کرتے ہیں مگر کیا صرف یہی ہماری بدحالی کی بڑی وجہ ہے؟ بدعنوانی یقیناً ایک اہم مسئلہ ہے مگر اس سے بڑا مسئلہ نااہلی ہے جس کی وجہ سے بجٹ کا ایک بڑا حصہ ضائع ہو جاتا ہے اور عوام کو اس کا بھی بوجھ اٹھانا پڑتا ہے۔ پاکستان کے کسی گاؤں، تحصیل یا ضلع میں چلے جائیں آپ کو بے تحاشا ایسے نامکمل سکول، صحت کے مراکز اور سرکاری املاک ملیں گی جو صرف کاغذوں میں مکمل ہیں۔ ان تمام منصوبوں میں عوام کو تو کوئی فائدہ نہیں ہوا لیکن مقامی ایم این اے، ایم پی اے، ضلعی انتظامیہ اور ٹھیکیدار اپنی جیبیں بھرنے میں کامیاب رہے۔ پشاور کا بی آرٹی پروجیکٹ بھی ان میں سے ایک ہے جو نہ صرف کرپشن بلکہ نااہلی کی بھی ایک مثال ہے۔
میں آج بھی اس بات پر قائم ہوں کہ عمران خان کرپشن کے خلاف کچھ نہیں کر رہے بلکہ اسے صرف سیاسی نعرے کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ کیونکہ اگر وہ کرپشن کے خلاف ہوتے تو مبینہ کرپٹ لوگوں کو اپنے ساتھ شامل نہ کرتے اور اگر شامل کرنا ایک مجبوری تھی تو کم از کم انہیں وزارتیں نہ دیتے۔ اب تک عمران خان کی ٹیم کے پانچ ارکان کرپشن کے الزامات کی وجہ سے نکالے جاچکے ہیں۔ اب عمران خان نے ایسے لوگوں کو سرکاری املاک کی فروخت کی کمیٹی میں ڈالا ہے جن پر کئی بدعنوانی کے الزامات ہیں۔
مگر کرپشن ہی نہیں عمران خان کی ٹیم میں قابلیت کا بھی شدید فقدان ہے۔ وزیر خارجہ اسی میں خوش ہیں کہ راولپنڈی والے نہ صرف پالیسی بنا رہے ہیں بلکہ اس پر عمل بھی خود ہی کر رہے ہیں۔ وزیر خزانہ پچھلے آٹھ ماہ میں غریب اور تنخواہ دار طبقہ کی کمر بےانتہا مہنگائی سے توڑ چکے ہیں۔ عوام کو وہ کہتے ہیں قربانی دو مگر امیر طبقات کو کئی سو ارب روپوں کا فائدہ پہنچا چکے ہیں۔ وزیر تیل اور گیس عوام کو بھاری بھرکم بل بھیج کر خراج وصول کر رہے ہیں اور مشورہ دے رہے ہیں کہ گیزر استعمال نہ کریں۔ وزیر داخلہ خود عمران خان ہیں اور اپنا زیادہ وقت وہ مخالفین کو جیلوں میں بھجوانے میں صرف کرتے ہیں۔ پچاس لاکھ مکانات کی تعمیر کمیٹی میں تقریباً سارے لوگ بڑے بلڈر ہیں یعنی گھوڑے سے کہہ رہے ہیں گھاس سے دوستی کر لے۔ پچھلے آٹھ مہینے میں یہ بات ثابت ہو چکی ہے کے عمران خان کی ٹیم کرپشن اور نااہلی کا ملاپ ہے اس لیے کہ انہوں نے 22 سال میں کبھی سنجیدہ کوشش نہیں کی کہ اپنی پارٹی کی تنظیم سازی کریں اور ایک نئی قیادت کی تربیت کریں۔ ان کا سارا زور اس بات پر رہا کہ امپائر کی حمایت انہیں حاصل ہو جائے۔ اب امپائر ہی سے کہیں کہ حکومت چلائے۔
اس حکومت کی اب تک کی ناکامی اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ موجودہ نظام صرف امراء کے لیے ہے اور اس میں عوام کی حیثیت صرف غلاموں جیسی ہے۔ اس نظام میں ہم ہر طریقہ استعمال کر چکیں ہیں تاکہ قوم آگے بڑھے مگر چونکہ نظام ہی غلامانہ ہے اس لیے ہر ادارہ اپنا کام کرنے میں ناکام ہے۔ عمران خان اس نظام کی ایک آخری کوشش تھی کہ عوام کا اعتماد بحال کرسکیں مگر وہ بھی ناکام دکھائی دے رہے ہیں۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ایک نئے نظام کی تعمیر کی جائے جو صرف عوامی تحریک سے عمل میں آئے۔
.............................
نوٹ: مندرجہ بالا تحریر مصنف کی ذاتی آرا پر مبنی ہے اور ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔