سوویت دور کے منحرفین کی تصنیفات آج بھی عالمی ادب کے عظیم شہ پارے شمار کی جاتے ہیں۔ الیگزاندر سولزنتسن اور بورس پاسترنیک کو اس دور میں شہرت ملی۔ ڈاکٹر ژواگو نامی عظیم ناول سولزنتسن کا کینسر وارڈ، گُلاگ آرکیپیلاگو اسی دور میں دنیا بھر میں شہرت کی بلندیوں تک پہنچے۔
سٹالن دورمیں تحریر اور تقریر کی پابندیوں میں یہ عظیم ادب پیدا ہوا۔ یہی وہ دور تھا جب سوویت ادیبوں میں ’دراز کے لیے‘ لکھنے کی اصطلاح مشہور ہوئی تھی۔ اس دور میں کمیونسٹ پارٹی کا استبدادی نظام معاشرے کے ہر محکمے اور پہلو پر قابض تھا۔ سوویت ادبی انجمن کے اندر سوشلسٹ حقیقت نگاری کی اصطلاح کے لبادے میں ہر تنقیدی اور مختلف آواز کو دبایا جاتا تھا۔ اس دور کے ادب کا بڑا حصہ یا تباہ ہو گیا یا ملک سے باہر چھپا۔ اگر ملک میں چھپا بھی تو اکثر سوویت یونین کے خاتمے کے بعد۔ یہی وہ دور تھا جب سوویت ادیب اپنی تصنیفات لکھ کر دراز میں ڈال دیا کر دیتے تھے اس امید کے ساتھ کہ شاید اچھے دن آئیں اور ان کی تصنیفات اگلی نسلوں تک پہنچ جائیں۔ یہیں سے ’دراز کے لیے‘ کی اصطلاح مشہور ہوئی۔
حالانکہ سٹالن کی موت کے بعد نکیتا خروشچیف کے آنے کے بعد یہ امید پیدا ہوئی تھی کہ سٹالن دور میں سوویت لکھاریوں پر عائد پابندیوں میں کمی آئے گی لیکن سٹالن دور کا ورثہ خاصا طاقتور ثابت ہوا۔ یہی وجہ ہے سٹالن کی موت کے تین سال بعد فروری 1956 میں سوویت کمیونسٹ پارٹی کی 20ویں کانگریس جس میں خروشچیف نے ایک خفیہ تقریر بھی کی تھی جس میں سٹالن دور کے مظالم پر آواز بلند کی گئی تھی۔
لیکن ایک سال بعد ہی بورس پاسترنیک کے شہرہ آفاق ناول ڈاکٹر ژواگو کی سویت یونین میں اشاعت پر پابندی لگا دی گئی۔ اس ناول پر سویت یونین حکام کی طرف سے اتنی مزاحمت ہوئی تھی کہ بورس پاسترنیک نے 1958 میں دیا گیا نوبیل انعام ٹھکرا دیا تھا کیونکہ اسے ملک بدر کرنے اور سویت شہرین منسوخ کرنے کی تیاری ہو رہی تھی۔ یہی وہ موقع تھا جب بورس پاسترنیک نے خروشچیف کو براہ رست مخاطب کرتے ہوئے خط لکھا تھا، ’میرے دیس کی سرحد سے انخلا میری موت کے برابر ہو گا۔ میں ذاتی التجا کرتا ہوں کہ یہ انتہائی قدم نہ اٹھایا جائے۔‘ دو سال بعد بورس پاسترنیک اس دنیا سے چلے گئے۔
ایک اور سوویت ادیب اور ناول نگار الیگزاندر سولزنتسن کے ساتھ اس سے بھی بدتر سلوک ہوا۔ حالانکہ سولزنتسن دوسری عالمی جنگ میں نازی جرمنی کے خلاف سوویت یونین کے دفاع میں لڑا لیکن صرف ایک ذاتی خط میں سٹالن کے خلاف باتیں کرنے پر آٹھ سال قید کاٹی اور اندرونی جلاوطنی بھی کاٹی۔ 1970 میں سولزنتسن کو ادب کا نوبیل انعام دیا گیا۔ حالانکہ سولزنتسن اس ڈر سے انعام لینے نہ گئے کہ کہیں انہیں جلاوطن نہ کر دیا جائے لیکن پھر بھی چارسال بعد برژنیف سرکار نے ان کی شہریت منسوخ کر دی اور انہیں اس وقت کے مغربی جرمنی جلاوطن کر دیا گیا جہاں سے وہ امریکہ چلے گئے۔ سولزنتسن سویت یونین کےخاتمے کے تین سال بعد 1994 میں روس واپس گئے۔
آج کے پاکستان میں سوویت دور کی بہت سی مماثلتیں موجود ہیں۔ حالانکہ سرد جنگ کا خاتمہ ہو چکا ہے اور دنیا کثیر القطبی بن گئی ہے لیکن آج دنیا بھر میں نئی طرح کے تانا شاہ ابھر رہے ہیں جو عدم برداشت اور تنقیدی آوازوں کو دبانے پر یقین رکھتے ہیں۔ یہ عدم برادشت مختلف النوع سیاسی نظام ہونے کے باوجود اپنے اندر آمرانہ رجحانات کو مضبوط کر رہی ہے۔ ٹرمپ کے امریکہ سے برازیل کے بولسونرو سے ترکی کے اردوغان تک، روس کے پوتن سے پاکستان کے عمران خان تک اور بھارت کے مودی سے چین کے شی چن پنگ تک، آپ کو مخالفین کے لیے عدم برداشت اور آمرانہ رویوں کی بہت شکلیں نظر آئیں گی۔
جمہوریت کی کساد بازاری کے اس دور میں ریاستی بیانیے کے ساتھ مطابقت رکھنے کو اثاثہ اور مختلف سوچ رکھنے کو مخالفت اور اسے حتمی طور پر غداری اور ملک دشمنی قرار دیا جاتا ہے۔ ڈیجیٹل دور کی برکتوں کی وجہ سے ٹرولنگ کی سہولت بھی موجود ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دلچسپ صورت حال کبھی مضحکہ خیز بھی بن جاتی ہے جب ریاستیں ایک دوسرے کے منحرفین کو ہیرو کا درجہ دے دیتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ارون دھتی رائے کو اپنے ملک میں غدار اور ہمارے ہاں ہیرو کا درجہ حاصل ہے اور عاصمہ جہانگیر جیسی آوازوں کو دنیا بھر میں تو عزت و احترام سے دیکھا گیا لیکن اپنے ملک میں ریاست اور ریاستی اداروں کی طرف سے وہ عزت و توقیر نہیں ملی جس کی وہ حقدار تھیں۔
پاکستان میں ویسے تو تمام تر مارشلاؤں کے باوجود مزاحمت کا ایک کلچر موجود رہا ہے لیکن پچھلے کچھ سالوں سے خاص طور پر تبدیلی سرکار کے آنے سے کچھ پہلے سے ہی تنقیدی آوازوں کو زندگی کے تمام شعبوں میں دبانے اور پیچھے دھکیلنے کا سلسلہ جاری ہے۔ بہت سے لوگوں کو توقع تھی کہ انتخابات کے بعد جیسے ہی نئی سرکار اپنے قدم جما لے گی تو تنقیدی آوازوں کو دبانے کا سلسلہ بند ہوجائے گا۔ یہاں تک کہ ’چھ ماہ تک مثبت رپورٹنگ‘ کی درخواست بھی خاصی پرانی ہوچکی ہے لیکن پاکستان میں اظہار رائے کی آزادی پر پابندیاں بدستور برقرار ہیں۔ کہنے کو تو آئین کا آرٹیکل 19 اور 19 اے موجود ہے اور بنیادی حقوق بھی آئین میں موجود ہیں لیکن ملک میں بڑھتے ہوئے آمرانہ رجحانات مضبوط ہوتے چلے گئے ہیں۔
ایک ایک کر کے ٹیلی ویژن سے تنقیدی آوازیں غائب کر دی گئی ہیں۔ ٹیلی ویژن انٹرویو چلتے چلتے بند ہونا، میوٹ ہونا، کالم بند ہونا، نہ چھپنا اب معمول ہو گیا ہے۔ پارلیمان میں تنقیدی تقریریں نشر نہ ہونا اور نہ چھپنا بھی اب ایک معمول بن گیا ہے۔ ہمارے ہاں بھی درازیں موجود ہیں لیکن اب وہ بھی چوری ہو جاتی ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ نفرت کا کاروبار بند کر دیا گیا ہے۔ ابھی چند دن پہلے کی بات ہے کہ ایک مذہبی شخصیت نے سپریم کورٹ کے جج قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف انتہائی ہتک آمیز اور دھمکی آمیز گفتگو کی۔ اس سے پہلے بھی فیض آباد دھرنے کے اہم کردار اور ان کے ہمنواؤں نے اعلیٰ عدلیہ سے متعلق انتہائی ہتک آمیز گفتگو کی تھی۔ لیکن ابھی حال ہی میں ایک سینیئر صحافی مطیع اللہ جان کی ایک ٹویٹ پر اعلیٰ عدلیہ نے از خود نوٹس لیا ہے۔
حالانکہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے اس ٹویٹ پر اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے لیکن انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کی عزت اور شان اتنی بھی لاغر نہیں کہ وہ ایک ٹویٹ سے مجروح ہو جائے۔ کہاں ہتک اور دھمکی آمیز گفتگو اور کہاں شائستگی کے دائرے میں تنقید کا پہلو ہے، فیصلہ کرنا انتہائی ضروری ہے تاکہ ملک میں برداشت اور اظہار رائے کو مکمل طور پر کچل کر نہ رکھ دیا جائے۔
مختلف النوع سوچ اور فکر کی آزادی اور جمہوریت لازم و ملزوم ہیں اس لیے تعلیمی اداروں کے اندر سوچ کی آزادی اور سوال اٹھانے کی آزادی کے بغیر ہم ان اداروں میں صرف شاہ دولے کے چوہے ہی پیدا کر سکتے ہیں۔ حالیہ سالوں میں اس میں بھی تنزلی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ بات صرف سرکاری تعلیمی اداروں تک محدود نہیں ہے۔ پچھلے دنوں کراچی میں ناول نگار اور صحافی محمد حنیف، لاہور میں عمار علی جان، آئمہ کھوسہ اور پرویز ہودبھائی کے بعد اب اسلام آباد میں عاصم سجاد کی برطرفی کی خبریں مل رہی ہیں۔ ان اقدامات سے میکارتھی ازم کی بو آتی ہے۔
تنقیدی آوازیں دبانے سے معاشرے بیمار ہوتے ہیں۔ ان کی روح مردہ ہو جاتی ہے۔ ’کینسر وارڈ‘ ناول میں الیگزاندر سولزنتسن نے لکھا تھا: ’رسولی سے بندہ مر جاتا ہے۔ جلاوطنی اور قید خانوں کی رسولی سے ملک کیسے بچ سکتے ہیں؟‘