سپین میں 39۔1936 کے درمیان ہونے والی خانہ جنگی میں انتہا پسند قوم اور فسطائیت پرستوں کے خلاف بننے والے اتحاد میں دنیا بھر کے رضا کاروں نے شرکت کی۔ برطانیہ، امریکہ، کینیڈا اور دوسرے ممالک سے جتھے سپین کو بچانے کے لیے جوق درجوق آئے۔ ان ملکوں کی حکومتوں نے ان مغربی مجاہدوں کا راستہ نہ روکا۔
برطانیہ اور امریکہ میں یہ سوچ پائی جاتی تھی کہ باقاعدہ فوجی کارروائی کر کے ماحول خراب کرنے کی کیا ضرورت ہے جب یہ رضا کار غیررسمی طور پر کام خود سے کر سکتے ہیں اور خاموشی سے اپنی سرزمین کی طرف سے سپین کی جنگ میں حصہ ڈال کر تاریخ بھی رقم کر سکتے ہیں۔
یہ کالم مصنف کی آواز میں آپ یہاں سن بھی سکتے ہیں
یہ بین الاقوامی جہادی سپین میں تین سال تک بڑے جوش سے لڑے اور باوجود اس کے کہ ان کے مخالفین کو شکست نہیں ہوئی سپین کی سیاست اور معاشرت پر انہوں نے گہرے اثرات مرتب کیے۔
پاکستان بیسویں صدی کا سپین نہیں ہے۔ الحمدللہ خانہ جنگی کی کیفیت سے کوسوں دور ہے لیکن وزیر اعظم عمران خان کے مشیران اور معاونین خصوصیوں کی شہریت کی فہرست پڑھ کر یہ گماں ضرور ہوتا ہے کہ جیسے مغرب نے اس ملک کی قمست بدلنے کے لیے بین الاقوامی بریگیڈ اس حکومت کے حوالے کی ہو تاکہ یہ نیا پاکستان بنا سکے۔
اس اہم گروپ میں امریکی شہریت یا رہائشی ویزہ سرفہرست ہے۔ اس کے بعد کینیڈا، برطانیہ پھر دوسرے ممالک ہیں۔ ندیم بابر، معید یوسف، شہباز گل، شہزاد قاسم، تانیہ ایدروس، زلفی بخاری اور مختارے کے دوست ندیم افضل چن بین الاقوامی گروپ کے ممبران میں۔
اس کے ساتھ اگر آپ ان وزرا اور مشیران کو بھی شامل کریں جن کی بیویاں اور بچے غیرملکی شہری ہیں (جیسے عبدالحفیظ شیخ ) تو کابینہ اور مشیران کا پاکستان سے باہر تعلق و واسطہ اتنا ہی گہرا بن جاتا ہے کہ جتنا سپین کی خانہ جنگی میں شرکت کرنے والوں کا تھا۔
یاد رہے بعض ممالک (جیسے کہ امریکہ) شہریت دینے کے لیے اپنی سرزمین کی حفاظت کے لیے ہتھیار اٹھانے کو بھی شہریت کے عہد نامے کا حصہ بناتے ہیں۔ برطانیہ کی شہریت تاج برطانیہ کی سر کی قسمیں کھانے سے ملتی ہے اور اگر آپ نے اپنی اولاد غیرممالک میں پالنی ہے یا وہاں پر اپنا مال رکھنا ہے تو اس نظام کی مکمل اطاعت گزاری کے بغیر یہ ممکن نہیں۔
یہ ہو نہیں سکتا کہ آپ رہتے تو بیرون ملک ہوں اور ان کی منشا اور مرضی کے بغیر کسی اور سرزمین سے محبت کو عملی جامہ پہنا پائیں۔ اس کے ساتھ ان معاونین جو معیشت، پٹرولیم، قومی سلامتی، سیاحت اور بیرون ملک پاکستانیوں کے معاملات، سیاسی مشاورت، قانون وغیرہ کے اہم شعبوں پر قائم و قابض ہیں ان کے اثاثوں کی فہرستیں بھی سامنے آئی ہیں۔
اکثر ارب پتی ہیں جنہوں نے اپنا مال یا تو ملک سے باہر رکھا ہوا ہے یا پھر ملک میں غیرملکی کرنسی کی صورت میں۔ سید قاسم، زلفی بخاری، سردار رند غیرملکی اکاؤنٹس میں پہلے تین نمبروں پر ہیں۔ ہماری معیشت کے محافظ ڈاکٹر حفیظ شیخ، پٹرولیم کے بادشاہ ندیم بابر، قومی سلامتی کے معاملات پر دن رات ایک کرنے والے معید یوسف اور سٹیٹ بینک کے سابق گورنر اور ملکی اداروں کو ازسر نو بنانے والے عشرت حسین اس لسٹ میں آتے ہیں۔
سیاسی امور و ابلاغ کے سجیلے سپاہی شہباز گل کے ساتھ شہزاد اکبر، عبدالرزاق داؤد اور ملک امین اسلم سب نے اکاؤنٹس ملک سے باہر رکھے ہیں۔ اور تو اور جنرل عاصم باجوہ کو بھی غیرملکی کرنسی اکاؤنٹ کی ضرورت ہے۔ مگر جنرل صاحب کے اثاثے ویسے بھی غیر معمولی ہیں۔ پلاٹوں اور زمینوں کے باوجود محض کروڑوں روپے ہی ہیں۔ ان کو لگ بھگ تین کروڑ کی جیپ بھی 30 لاکھ میں ملتی ہے۔ بالکل فاروق ستارکی گاڑی کی طرح، جس کے حصول کی جہدوجہد کو انہوں نے ایک باقاعدہ پریس کانفرنس میں تفصیل کے ساتھ بیان کیا تھا۔
کل ملا کر ڈیڑھ ارب کے قریب اثاثے 20 میں سے 14 معاونین و مشیران کے اکاؤنٹس میں پڑے ہیں جس میں سے 70 فیصد ملک سے باہر ہیں۔ (ان سے سبق سیکھ کر میں نے بھی اپنا دھیلا ٹکا ڈالر کے نام کرنے کا تہیہ کر لیا ہے) شاید ان اثاثوں کا وزن ہی ہے جو روپے کو مسلسل قلابازیاں لگوا رہا ہے۔
کوئی تو وجہ ہوگی کہ ڈاکٹر حفیظ شیخ نے 13 کروڑ 50 لاکھ میں سے صرف 25 ہزار قومی کرنسی میں رکھ چھوڑے ہیں۔ ان کو روپے کے مستقبل کا خوب پتہ ہے۔ اس کے علاوہ شہزاد اکبر سمیت ان مشیران، معاونین کے اثاثے پڑھ کر یہ بھی سمجھ آیا کہ جائیدادیں تحفے میں بھی مل سکتی ہیں اور اس میں کوئی قباحت نہیں۔
شہزاد اکبر، جو جسٹس قاضی فائز عیسی کیس پر معمور کیے گئے ہیں، گجر خان کی دیہاتی یا نیم شہری ماحول سے لے کر سپین کے دور دراز کے علاقے میں جائیدادیں رکھتے ہیں، تین ورثے میں ملی ہیں، ایک والد صاحب نے تحفے میں دی۔ اب والد صاحب کیا کام کرتے تھے اس کا پتا نہیں ہے اور نہ ہی یہ جاننے کی ضرورت ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ تمام فہرستیں نامکمل ہیں کیوں کہ ان میں بچوں اور رشتہ داروں کے نام بےنامیاں شامل نہیں۔ مقدس اثاثے ہیں جن کا ہر گناہ معاف ہے جو دودھ سے دھلے ہوئے پاکیزہ اکاؤنٹس میں موجود ہیں۔ بیرون ملک رہائش بھی مسئلہ نہیں۔
سب چلتا ہے۔ چن سجناں نے کینیڈا میں گزر بسر کرنے کی پلاننگ کر کے کوئی انہونی نہیں کی۔ وہ دیکھ رہے ہیں کہ جب وزیر اعظم کی اولاد برطانوی معاشرے میں پل سکتی ہے تو ان کے بچوں کا کیا قصور ہے؟ وہاں سے مختارے سے بات کرنے میں رکاوٹ نہیں اور برابر میں ڈاکٹر قادری کا روحانی دروازہ رہنمائی کے لیے ایک اضافی سہولت کے طور پر موجود ہے۔
جب پاکستان میں انقلاب برپا کرنا ہو گا وہاں سے فلائٹ پکڑ کر آ جائیں گے اور دو ماہ بعد ادائیگیاں لے کر واپس ٹورنٹو۔ لہٰذا ایسے حالات میں سرگودھا میں سر کھپانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ باہر کی شہریت لو اور پاکستان میں موجیں لوٹو۔
اس تمام رنگین، انگریزی، امریکی، کینیڈی ماحول میں ہم ایک بات بھول گئے کہ ہمارا دوست ملک چین اس معاملے کو کیسے دیکھ رہا ہے ہو گا۔ چند ماہ پہلے جب ان کے ایک سفارت کار نے بین السطور پاکستان کی فیصلہ سازی میں امریکہ کے بڑھتے ہوئے اثر ورسوخ کی بات کی تو میں نے اس کو غیرضروری احساس عدم تحفظ سمجھ کر ٹال دیا۔
مگرجب سے یہ فہرست سامنے آئی ہے میں سوچ رہا ہوں کہ اگر چین کی معیشت، مرکزی بینک، قومی سلامتی اور اس طرح کے درجنوں امور پر بھارتی شہریت رکھنے والے مامور ہوں تو ہم کیسا محسوس کریں گے؟