وزیراعظم عمران خان کے حکم پر وفاقی کابینہ میں موجود 5 مشیران اور 15 معاونین خصوصی کے اثاثوں کی تفصیلات جاری کر دی گئی ہیں جس کے مطابق 20 میں سے 14 مشیران اور معاونین کے پاس غیر ملکی کرنسی اکاؤنٹس میں 1.45 ارب روپے مالیت کی غیر ملکی کرنسی موجود ہے۔
1.45 ارب روپے میں سے 1.08 ارب روپے (75 فیصد) بیرون ملک میں ہیں جب کہ باقی 0.36 ارب روپے (25 فیصد) پاکستان کے بینک اکاؤنٹس میں موجود ہیں۔
یہاں یہ بات دلچسپ ہے کہ وزیراعظم عمران خان ماضی میں عوامی عہدوں پر فائز افراد کو اپنے اثاثے ملک واپس لانے کا کہتے رہے ہیں اور اپنے دور حکومت میں ڈالر کی ذخیرہ اندوزی کرنے والوں کے خلاف حکم بھی جاری کر چکے ہیں۔ مارچ 2020 میں وزیراعظم عمران خان نے ڈالر کی بڑھتی قیمت اور ذخیرہ اندوزی پر نوٹس لیا تھا۔ اس کے علاوہ اپریل 2019 میں اس وقت کے وزیر اطلاعات فواد چوہدری بھی ڈالر کی ذخیرہ اندوزی پر ایف آئی اے کو حکومتی ہدایات کے حوالے سے عوام کو مطلع کر چکے ہیں۔ ایسے میں مشیران اور معاونین خصوصی کے ملک میں موجود اور ملک میں باہر ڈالر، پاؤنڈز، یورو، اماراتی دینار اور سنگاپور ڈالرز کی تفصیلات سامنے آئی ہیں۔
Government has directed FIA to launch a full fledged operation against Dollar hoarding, and speculative currency trade the operation is being launched in coordination with State Bank and ministry of Finance
— Ch Fawad Hussain (@fawadchaudhry) April 5, 2019
کابینہ ڈویژن کی ویب سائٹ پر موجود کابینہ کے ان 20 اراکین کے اثاثہ جات کا انڈپینڈنٹ اردو نے جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ جاری کی جانے والی تفصیلات کے مطابق کل 55 غیر ملکی کرنسی اکاؤنٹس 14 مشیران و معاونین اور ان کی اہلیہ کے نام ہیں۔ ان اکاؤنٹس میں سے 36 غیر ملکی جب کہ 18 پاکستان میں موجود ہیں۔ سردار یار محمد رند کے بھی غیر ملکی کرنسی اکاؤنٹس ہیں مگر انہوں نے ان کی تفصیلات نہیں دیں کہ کتنے اکاؤنٹس ہیں، صرف کل رقم درج کی گئی ہے۔
غیر ملکی کرنسی اکاؤنٹس میں سب سے زیادہ رقم وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے پاور ڈویژن شہزاد سید قاسم کے پاس ہے۔ غیر ملکی کرنسی اکاؤنٹس میں ان کے پاس 43 کروڑ، 38 لاکھ روپے ہیں اور ان کے پاکستان کے علاوہ پانچ مختلف ممالک میں اکاؤنٹس موجود ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دوسرا نمبر وزیراعظم کے قریبی دوست اور معاون خصوصی برائے سمندر پار پاکستانی سید ذوالفقار عباس بخاری (ذلفی بخاری) کا ہے۔ ان کی اور ان کی اہلیہ کے چار اکاؤنٹس میں 35 کروڑ، 60 لاکھ روپے کے قریب موجود ہیں۔
تیسرا نمبر معاون خصوصی معاملات برائے وزارت آبی وسائل سردار یار محمد رند کا ہے جنہوں نے بتایا ہے کہ ان کے پاس غیر ملکی اکاؤنٹس میں 20 کروڑ، 23 لاکھ روپے ہیں۔ چوتھا نمبر مشیر خزانہ حفیظ شیخ ہے جن کے پانچ اکاؤنٹس میں 14 کروڑ، 16 لاک روپے مالیت کی غیر ملکی کرنسی موجود ہے۔
تمام 14 مشیران اور معاونین کے غیر ملکی کرنسی اکاؤنٹس کی صورت حال کچھ یوں ہیں۔
نوٹ: اثاثوں میں دی گئی تفصیلات کے مطابق اکاؤنٹس میں موجود رقوم غیر ملکی کرنسی میں ہیں مگر ہم نے قارئین کے لیے تمام کرنسیوں کو روپے میں بدل کر لکھا ہے اور ان کے ایکسچینج ریٹ اس طرح ہیں:
- ڈالر: 167 روپے
- یورو: 191 روپے
- برطانوی پاؤنڈ: 210 روپے
- اماراتی دینار: 45 روپے
- سنگاپور ڈالر: 120 روپے
کابینہ ڈویژن کی جانب سے اثاثوں سے متعلق جاری تفصیلات
زلفی بخاری
برطانوی شہریت رکھنے والے وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے اوورسیز پاکستانیز زلفی بخاری پاکستان میں 1300 کنال سے زائد اراضی کے مالک ہیں۔
جاری دستاویز کے مطابق اسلام آباد میں زلفی بخاری کے 34 کنال اراضی پر مشتمل پلاٹس ہیں جب کہ لندن میں 48 لاکھ 50 ہزار پاؤنڈز کی جائیداد کے بھی مالک ہیں۔ ان کے بیرون ملک پانچ کمپنیوں کے شیئرز بھی ہیں۔
دستاویزمیں بتایا گیا ہے کہ زلفی بخاری کی اہلیہ کے پاس 5 لاکھ پاؤنڈ مالیت کا سونا ہے اور دونوں کے پاس پاکستان میں 24 لاکھ روپے بینکوں میں موجود ہیں۔ زلفی بخاری کی بیرون ملک بینکوں میں 17 لاکھ پاونڈ رقم اس کے علاوہ ہے۔
عاصم سلیم باجوہ
وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے اطلاعات عاصم سلیم باجوہ 15 کروڑ روپے کے اثاثوں کے مالک ہیں اور دستاویز کے مطابق ان کے پاس گلبرگ گرین، اسلام آباد میں سات کروڑ روپے مالیت کا پانچ کنال کا مکان بھی ہے۔ اس کے علاوہ وہ رحیم یار خان اور بہاولپور میں 65 ایکڑ اراضی کے بھی مالک ہیں۔
دستاویز میں بتایا گیا ہے کہ کراچی، لاہور اسلام آباد میں معاون خصوصی اطلاعات کے پاس پانچ پلاٹس بھی ہیں۔ ان کے بینک اکاونٹ میں تقریبا تین لاکھ روپے کے علاوہ چار ہزار سے زیادہ ڈالرز بھی ہیں۔
معید یوسف
معاون خصوصی برائے نیشنل سکیورٹی ڈویژن معید یوسف بھی لاہور میں والد سے تحفے میں ملے ہوئے پانچ کنال کے مکان کے مالک ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے دادی کے تحفے میں ملی رقم سے فتح جنگ میں زرعی اراضی خریدی تھی جبکہ نیشنل ڈیفنس سرٹیفیکیٹس بیچ کر انہوں نے ڈی ایچ اے لاہور میں ایک پلاٹ بھی خرید رکھا ہے۔
ندیم بابر
معاون خصوصی برائے پٹرولیم ندیم بابر 2 ارب 75 کروڑ روپے کے مالک ہیں جب کہ ان کی پاکستان اور بیرون ملک جائیدادیں ہیں اور اس کے علاوہ بیرون ملک دو درجن سے زائد کمپنیوں میں شیئرز ہیں۔
دستاویز کے مطابق ندیم بابر پاکستان میں 12 کروڑ97 لاکھ روپے کی کمرشل اراضی کے بھی مالک ہیں۔
شہباز گل
اعزازی حیثیت میں خدمات سرانجام دینے والے امریکی گرین کارڈ ہولڈر شہباز گل کے ذمے 2 کروڑ 42 لاکھ کے واجبات ہیں تاہم ان کے موجودہ اثاثوں کی مالیت 9 کروڑ 44 لاکھ روپے ہے۔
دستاویز کے مطابق شہباز گل پاکستان میں ایک پلاٹ، فارم ہاؤس اور بیرون ملک ایک مکان کے مالک ہیں۔
شہزاد سید قاسم
معاون خصوصی برائے پاور ڈویژن کے دبئی میں تین ماکانات کی مالیت دو کروڑ درہم سے زائد ہے۔ ان کی امریکہ میں پراپرٹی کی قیمت 8 لاکھ 65 ہزار ڈالرز ہے۔ شہزاد سید قاسم کے امریکہ میں بینک اکاؤنٹس میں 21 لاکھ ڈالرز کی رقم موجود ہے جبکہ دبئی میں بینک اکاؤنٹس میں 18 لاکھ درہم موجود ہیں۔
شہزاد سید قاسم کے پاس 97 لاکھ روپے مالیت کے چار پلاٹ ہیں اور انہوں نے پاکستان میں 12 کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔
ڈاکٹر ثانیہ نشتر
پشاور سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے اپنے حلفی بیان میں کہا ہے کہ ان کے آبائی شہر میں صدر روڈ پر ان کا 14 مرلے کا ایک مکان کسی کے ساتھ مشترکہ ملکیت ہے۔ ان کے بیرون ملک کوئی اثاثے نہیں ہیں۔
ان کی پاس ایک گاڑی ہے جو ان کے شوہر کے نام پر ہے اور پانچ لاکھ کے زیورات ہیں۔ ان کے اپنے ایک بینک اکاونٹ میں محض ساڑھے چھ لاکھ روپے نقد پڑے ہیں تاہم ان کے شوہر کے مختلف بینکوں میں رقوم ایک کروڑ اکتالیس لاکھ کی رقم موجود ہے۔
شہزاد اکبر
ریکوری یونٹ کے سربراہ شہزاد اکبر کو گوجر خان میں تین مکانات اور اراضی ورثے میں ملیں اور وہ ان کے شریک مالک ہیں۔ اسلام آباد میں بھی ان کا گلبرگ گرین میں ایک پلاٹ میں 65 لاکھ روپے کا آدھا حصہ ہے۔ تاہم انہوں نے رقم میں ان اثاثوں کی مالیت نہیں بتائی۔
ان کے اپنے تو بیرون ملک اثاثے نہیں لیکن ان کی اہلیہ کا انہوں نے سپین میں ورثے میں ملا ہوا فلیٹ ڈکلیر کیا ہے۔ اس کے علاوہ ان کے پاس بینک میں 45 لاکھ روپے پڑے ہیں۔
محمد شہزاد ارباب
سابق سرکاری افسر محمد شہزاد ارباب کے اثاثوں میں پشاور اور اسلام آباد میں میں دس کروڑ روپے سے زائد کے مکانات اور اراضی ہے۔ ان کے پاس آٹھ لاکھ روپے سے زائد کیش ان ہینڈ ہیں جبکہ 57 لاکھ روپے سے زائد بینکوں میں پڑے ہیں۔
شہریت
وزیر اعظم کے 15 معاونین و مشیروں میں سے سات دوہری شہریت رکھتے ہیں یا مستقل رہائشی ہیں، تاہم سردار یار محمد رند کی شہریت سے متعلق ڈیکلرشن جاری تفصیلات میں شامل نہیں ہے۔
وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے سیاسی روابط شہباز گل امریکی گرین کارڈ ہولڈر ہیں جب کہ معاون خصوصی برائے نیشنل سکیورٹی ڈویژن معید یوسف امریکہ کے رہائشی ہیں۔
وزیر اعظم کے معاون خصوصی پٹرولیم ندیم بابر امریکی شہریت رکھتے ہیں جبکہ معاون خصوصی برائے اورسیز پاکستانی زلفی بخاری کے پاس برطانوی شہریت ہے۔
معاون خصوصی برائے امور توانائی شہزاد سید قاسم بھی امریکہ کے شہری ہیں جب کہ اس کے علاوہ معاون خصوصی برائے پارلیمانی امور ندیم افضل گوندل بھی کینیڈا میں مستقل رہائش رکھتے ہیں۔
وزیراعظم کی معاون خصوصی ڈیجیٹل پاکستان تانیہ ایدریس کے پاس کینیڈا کی پیدائشی شہریت ہے اور وہ سنگاپور کی مستقل رہائشی ہیں۔
تجزیہ کاروں کا ردعمل
اس معاملے پر تجزیہ کاروں کی مختلف آرا سامنے آئیں۔ سینیئر اینکر سلیم صافی نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں کہا: 'ایک بے اختیار ایم این اے کے لیے تو دوہری شہریت ممنوع ہے لیکن اہم ترین مشیر جن میں سے ایک عملاً ڈپٹی وزیراعظم ہیں، غیرملکی شہری ہیں۔ پیپلز پارٹی یا نون لیگ کی حکومت ہوتی تو کب کا سکیورٹی رسک ڈکلیئر ہوچکا ہوتا لیکن امریکہ اور برطانیہ کے ان شہریوں کے بارے میں ہر طرف خاموشی ہے۔'
ایک بے اختیار ایم این اے کے لئے تو دھری شہریت ممنوع ہے لیکن اہم ترین مشیر جن میں سے ایک عملا ڈپٹی وزیراعظم ہیں ، غیرملکی شہری ہیں۔ پیپلز پارٹی یا نون لیگ کی حکومت ہوتی تو کب کی سیکورٹی ریسک ڈیکلئیر ہوچکی ہوتی لیکن امریکہ اور برطانیہ کے ان شہریوں کے بارے میں ہر طرف خاموشی ہے۔ pic.twitter.com/0drjYFZXhc
— Saleem Safi (@SaleemKhanSafi) July 18, 2020
اینکر پرسن عارف حمید بھٹی نے اپنی ٹویٹ میں کہا: 'ملکی آبادی 22 کروڑ ہے۔ پی ٹی آئی کے مطابق 22 سال انہوں نے جدوجہد کی مگر وزیر اعظم کے معاون خصوصی دوسرے ممالک کی شہریت کے نکلے۔ کیا پاکستان میں کوئی بھی اس قابل نہیں کہ وزیراعظم کو غیرملکی شہریت رکھنے والوں کو ساتھ رکھنا پڑا؟ مجبوری، ضرورت، خواہش؟'
ملکی آبادی 22 کروڑ ھے، #PTI کے مطابق 22 سال انہوں نے جدوجہد کی مگر وزیر اعظم کے 7 SAPM دوسرے ممالک کی شہریت کے نکلے۔ کیا پاکستان میں کوئی بھی اس قابل نہیں کہ #PM کو غیرملکی شہریت رکھنے والوں کو ساتھ رکھنا پڑا؟
— Arif Hameed Bhatti (@arifhameed15) July 18, 2020
مجبوری، ضرورت، خواہش ؟#PTI #PMLN #ppp #nation @arsched
سینیئر قانون دان اظہر صدیق نے انڈپینڈنٹ اردو کے نامہ نگار ارشد چوہدری سے گفتگو میں بتایا کہ 'دوہری شہریت رکھنے پر انتخابات میں حصہ نہ لینے کی شرط صرف اراکین اسمبلی پر لاگو ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 63 ون جی کے مطابق دوہری شہریت رکھنے پر نااہلی کا قانون مشیران اور معاونین وزیراعظم پر لاگو نہیں ہوتا۔'
انہوں نے زلفی بخاری کی تقرری کے خلاف کیس کا حوالہ دیتا ہوا کہا کہ 'جب انہیں وزیر اعظم کا معاون خصوصی برائے اورسیز پاکستانیز مقرر کیا گیا تو سپریم کورٹ میں ان کی تقرری چیلنج کی گئی تھی، اس کیس میں عدالت عظمیٰ نے انہیں نااہل کرنے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے فیصلہ سنایا تھا کہ دوہری شہریت رکھنے پر نااہلی کا قانون مشیروں اور معاونین خصوصی پر لاگو نہیں ہوتا، کیونکہ یہ صرف عوامی نمائندوں کے بارے میں ہے۔'
انہوں نے کہا کہ 'اس لیے جتنے مشیر یا معاونین دوہری شہریت رکھتےہیں، ان کے خلاف قانونی کارروائی ممکن نہیں ہے، تاہم وزیر اعظم خود انہیں ہٹانے یا نہ ہٹانے کا اختیار ضرور رکھتے ہیں۔'