مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کی پکڑ دھکڑ، دباؤ اور انٹرویو پر حکومتی پابندیوں کے بعد اب مریم نواز ہر مواقع کھل کر سیاسی فائدے کے لیے استعمال کر رہی ہیں۔ احتساب عدالت میں جمعے کو پیشی کے موقعے کو بھی مریم نواز نے لباس سے لے کر گفتار تک سیاسی پوائنٹ سکورنگ کی۔
مریم نواز کے خلاف نیب کی درخواست میں یہ موقف اختیار کیا گیا تھا کہ ایون فیلڈ ریفرنس میں مریم نواز نے جعلی ٹرسٹ ڈیڈ جمع کرائی ہے، لہٰذا عدالت اس جعل سازی پر الگ سے سزا تجویز کرے لیکن عدالت نے نیب کی درخواست خارج کر دی۔
احتساب عدالت کی طرف جانے والے راستوں پر پولیس اور رینجرز کا غیر معمولی رش تھا۔ راستوں پر رکاوٹیں کھڑی کی گئی تھیں۔ احتساب عدالت میں جج محمد بشیر کی عدالت میں مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز کا کیس تھا۔
جج محمد بشیر کمرہ عدالت میں داخل ہوئے تو کافی خوشگوار موڈ میں تھے۔ انہوں نے ہاتھ ہلا کر سب کو سلام دیا۔ پھر پوچھا کہ ’مریم نواز اور ان کے وکیل کب پہنچیں گے؟‘
وکیل امجد پرویز کے معاون نے عدالت کو بتایا کہ وہ ٹول پلازہ سے گزر رہے ہیں، کچھ دیر تک عدالت پہنچیں گے۔
جج محمد بشیر نے سماعت دس بجے تک ملتوی کر دی۔ نو بج کر 55 منٹ پر مریم نواز کیپٹن صفدر کے ہمراہ عدالت میں داخل ہوئیں۔ ان کے ہمراہ پارٹی ترجمان مریم اورنگزیب اور سابق وفاقی وزیر پرویز رشید بھی موجود تھے۔ مریم نواز نے کمرہ عدالت میں داخل ہو کر باآواز بلند سب کو سلام کیا اور جج محمد بشیر کو الگ سے سلام کیا۔
عدالت کی کارروائی کور کرنے والے دیگر صحافیوں کا بھی کہنا تھا کہ مریم نواز آج کافی پراعتماد لگ رہی تھیں۔ مریم نے اس گرم موسم میں بھی سیاہ لباس زیب تن کر رکھا تھا جس پر نواز شریف کا تصویری خاکہ بنا ہوا تھا۔ قمیض کے دامن پر درج تھا: ’نواز شریف کو رہا کرو۔‘ وہ سر سے پاؤں تک سیاسی بیان بنی ہوئی تھیں۔
مریم نواز کے عدالت پہنچنے کے باوجود مریم کے وکیل دفاع امجد پرویز عدالت نہیں پہنچے۔ معاون نے عدالت کو بتایا کہ راستے میں پولیس کی جانب سے رکھی گئی رکاوٹوں اور متبادل راستے بند ہونے کی وجہ سے انہیں تھوڑا وقت لگ رہا ہے۔ جج محمد بشیر نے سماعت میں مزید 15 منٹ کا وقفہ کر دیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان 15 منٹوں کے دوران مریم نواز نے کمرہ عدالت میں موجود صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کی اور کھل کر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ کیپٹن صفدر مریم کی ساتھ والی نشست پر براجمان تھے۔ مریم صحافیوں کے سوالوں کا جواب دیتی رہیں اور کیپٹن صفدر خاموشی سے مسکراتے رہے۔ ماضی میں نواز شریف کے مقدمات کی سماعت میں کیپٹن صفدر اور مریم اکثر الگ الگ آتے تھے۔
مریم نواز نے کہا: ’میں آج ایک سال بعد دوبارہ احتساب عدالت آئی ہوں۔ آج سال بعد نیب کو یاد آیا ہے کہ مریم پر یہ کیس بھی بن سکتا ہے۔‘
انہوں نے کہا: ’لگتا ہے کہ وڈیو ریلیز ہونے کے بعد نیب کی یادداشت واپس آئی ہے۔‘
مریم نواز سے جب سوال کیا گیا کہ کیا آپ سے ڈیل کرنے کے لیے کسی قسم کا رابطہ کیا گیا؟ تو انہوں نے کہا کہ عدالتوں سے آزاد ہونے کے لیے ہم اپنے اصولوں کی قربانی نہیں دے سکتے۔ ہم اپنے اوپر ’سیلیکٹڈ‘ کا دھبہ نہیں لگوا سکتے۔ انہوں نے کہا: ’سیلیکٹڈ ہونے سے جیل بہتر ہے۔‘
مریم نواز نے کمرہ عدالت میں صحافیوں سے گپ شپ کے دوران کہا کہ ’جگہ جگہ رکاوٹیں کھڑی ہیں۔ مجھے سمن کیا اور مجھے بھی عدالت پہنچنے میں مشکل کا سامنا کرنا پڑا۔‘
ایک صحافی نے سوال کیا کہ ایسا کیوں ہے کہ آپ تو انٹرویو دینے کے لیے تیار ہیں لیکن کوئی انٹرویو لینے کو تیار نہیں؟ مریم نواز نے مسکراتے ہوئے جواب دیا: ’پہلے تو آپ تصیح کر لیں۔ لوگ انٹرویو لینے کے لیے تیار ہیں لیکن کوئی چلانے کے لیے تیار نہیں ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ جیسے حکومت سب کچھ بند کر رہی ہے ایسا نظام مارشل لا میں ہوتا ہے۔ ’میڈیا ہاؤسز کو کہا جا رہا ہے کہ مریم کا انٹرویو نہ چلائیں۔ سیاستدان پر برا وقت آتا ہے لیکن گزر بھی جاتا ہے۔‘
مریم سے پوچھا گیا کہ نون لیگ کے ساتھ اتنا کچھ ہو رہا ہے لیکن اب تک کوئی احتجاج سامنے نہیں آیا اس کی کیا وجہ ہے؟
اس کے جواب میں انہوں نے کہا: ’ن لیگ جب احتجاج کرے گی تو سب کو پتہ چل جائے گا کیونکہ ماضی میں بھی ن لیگ ابھی گوجرانوالہ بھی نہیں پہنچی تھی تو جج بحال ہو گئے تھے۔‘
مان لیں ضد نہ کریں، سلیکٹڈ الیکٹڈ سے بہتر ہے
’سلیکٹڈ کی بات وہ کر رہے ہیں جن کی تیاری ہی آمروں نے کی‘
ڈان اخبار کے صحافی نے سوال کیا کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع پر غور کیا جارہا ہے تو اس پر آپ کی کیا رائے ہے؟ مریم نواز نے مبہم انداز میں کہا: ’پاکستان کا آئین و قانون کیا کہتا ہے اس سے نہ ایک انچ آگے نہ پیچھے۔ ہم تو آئین کی سبز کتاب کو مانتے ہیں۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں کہوں گی۔‘
حکومت پر تبصرہ کرتے ہوئے مریم نے کہا: ’مجھے یہ حالات زیادہ دیر تک چلتے ہوئے نظر نہیں آ رہے۔‘ انہوں نے مزید کہا: ’گیدڑ کی جب موت آتی ہے تو وہ شہر کا رُخ کرتا ہے تو اب گیدڑ کی موت آ چکی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’میں تو حکومت کو پانچ سال پورے کرنے دوں گی لیکن عوام حکومت کو پانچ سال پورے نہیں کرنے دے گے۔‘
سابق صدر پرویز مشرف کے بارے میں مریم نواز کا کہنا تھا: ’جس نے بھی آمریت چلائی وہ نشان عبرت بنا ہے۔ ان کے بارے میں زیادہ بات نہیں کرنا چاہتی کیونکہ وہ بیمار ہیں۔‘
صحافیوں کے مطابق مریم کی کمرہ عدالت کے اندر کی جانے والی گفتگو میں کافی اشارے موجود تھے۔ درخواست خارج ہونے پر مریم کافی خوش اور مطمئن نظر آئیں۔