کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان نے شاید پہلی مرتبہ افغانستان میں برسر بیکار شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ خراسان کے خلاف سخت الفاظ کا استعمال کرتے ہوئے اس تنظیم کو مبینہ طورپر پاکستان اور امریکہ کے خفیہ اداروں کا آلہ کار ہونے کا الزام عائد کیا ہے۔
تحریک طالبان نے یہ بیان ایسے وقت جاری کیا ہے جب چند دن پہلے اقوام متحدہ کی طرف سے پاکستان اور افغانستان میں سرگرم شدت پسندوں تنظیموں کے ضمن میں ایک مفصل رپورٹ جاری کی گئی جس میں کہا گیا تھا کہ ٹی ٹی پی کے تقریباً چھ ہزار کے لگ بھگ جنگجو افغان سرزمین میں چھپے ہوئے ہیں اور وقتاً فوقتاً وہ پاکستان میں سکیورٹی اداروں پر حملوں میں ملوث رہے ہیں۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ٹی ٹی پی کے افغانستان میں موجود شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ خراسان سے مضبوط روابط قائم ہیں۔
تاہم تحریک طالبان کے ترجمان محمد خراسانی کی طرف سے جمعرات کو ذرائع ابلاغ کو جاری کردہ ایک مفصل بیان میں اقوام متحدہ کی رپورٹ کو مضحکہ خیز اور حقائق کے منافی قرار دیا گیا ہے۔
بیان میں خصوصی طورپر دولت اسلامیہ خراسان کا ذکر کرتے ہوئے اس تنظیم کو خفیہ اداروں کا منصوبہ قرار دیا گیا ہے۔
ٹی ٹی پی کے مطابق اس تنظیم کی بنیاد رکھنے والے خفیہ اداروں کے افراد ہیں جس کا بنیادی مقصد 'جہاد' کو بدنام کرنا ہے۔ بیان میں مزید الزام عائد کیا گیا ہے کہ کچھ ممالک داعش کے شکست خوردہ عناصر کو اپنی محفوظ پناہ گاہوں میں جمع کیے ہوئے ہیں تاکہ انہیں خطے اور افغانستان میں عدم استحکام پیدا کرنے کےلیے استعمال کیا جاسکے۔
بیان میں طالبان نے پاک افغان سرحد کے آر پار رہنے والے پشتونوں کا خصوصی طورپر ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ سرحد کے دونوں جانب آباد قبائل نہ پاكستان كا حصہ ہیں اور نہ افغانستان کا، بلكہ قبائل ڈیورنڈ كے غیر فطری معاہدے كے تناظر میں دونوں ممالک كے درمیان حدِ فاصل ہیں۔
ٹی ٹی پی نے اس بات کی بھی کھل کر وضاحت کی کہ ان کے 'جہاد' کا مرکز صرف اور صرف پاکستان تک محدود ہے۔
شاید یہ پہلی مرتبہ ہے کہ ٹی ٹی پی نے کھل کر دولت اسلامیہ خراسان کے خلاف اپنے موقف کا اظہار کیا ہے جس میں بعض تجزیہ کاروں کے مطابق 'سختی' بھی نظر آتی ہے۔
تحریک طالبان پاکستان پر تحقیق کرنے والے سویڈن میں مقیم نوجوان محقق عبد السید کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی کی ابتدا میں داعش سے متعلق حکمت عملی مختلف رہی ہے اور القاعدہ اور افغان طالبان کی طرح کبھی ان سے براہ راست ٹکراؤ سے گریز کیا گیا ہے۔ لیکن اب چونکہ دولت اسلامیہ کمزور ہوچکی ہے تو تحریک کی پالیسی میں بھی تبدیلی دیکھی جارہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ 'داعش خراسان کی بنیاد بھی ٹی ٹی پی ہی سے منحرف ہونے والے کمانڈروں نے رکھی تھی اور اس وقت طالبان قیادت کے ٹھکانے داعش کے مضبوط گڑھ کنڑ اور ننگرہار میں واقع تھے جس کی وجہ سے شاید تحریک ایک لحاظ سے ان کا مقابلہ کرنے کے لیے عسکری اور نفسیاتی اعتبار سے تیار نہ تھی۔'
عبد السید کے مطابق ٹی ٹی پی کی موجودہ قیادت نے تنظیم سے منحرف ہونے والے دھڑوں کو دوبارہ تنظیم کا حصہ بنایا ہے جس سے وہ خود کو اب افغانستان میں افغان طالبان کے بعد دوسری بڑی تنظیم سمجھتے ہیں اور جس سے ان کی طاقت میں اضافہ بھی ہوا ہے۔ جب کہ اس کے مقابلے میں داعش کی حیثیت ایک گمنام تنظیم جیسی ہوگئی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ٹی ٹی پی کے سابق امیر مولانا فضل اللہ کا داعش خراسان کے حوالے سے ہمیشہ سے موقف نرم رہا تھا اور وہ ان سے بناکر رکھتے تھے جس کی وجہ سے کبھی ان کے مابین بڑا تصادم دیکھنے میں نہیں آیا۔
جب کہ تحریک کے موجودہ سربراہ مفتی نور ولی کی سوچ مختلف نظر آتی ہے اور ان کی تمام تر توجہ اپنی طاقت بڑھانے پر مرکوز ہے۔
تاہم اس ضمن میں ٹی ٹی پی کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان کا موقف کچھ مـختلف نظر آتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی ہمیشہ سے داعش خراسان سے بیزار رہی ہے۔
'تحریک طالبان یہ سمجھتی ہے کہ پاکستان کی یہ خواہش ہے کہ انہیں داعش سے جوڑا جائے تاکہ عالمی سطح پر ان کی مخالفت میں اضافہ ہو اور شاید اسی وجہ سے ان کی طرف سے کھل کر دولت اسلامیہ کی مخالفت کی گئی ہے تاکہ اس اثر کو زائل کیا جاسکے۔'
احسان اللہ احسان نے مزید بتایا کہ 'اس سخت بیان سے تحریک ایک قسم کا افغان طالبان کو بھی اپنی وفاداری کا پیغام دینا چاہتی ہے اور انہیں یہ اعتماد بھی دینا چاہتی ہے کہ وہ داعش کی طرح نہیں بلکہ وہ صرف پاکستان مخالف ہے۔'
ٹی ٹی پی کی طرف سے اپنے بیان میں پشتونوں اور ڈیورنڈ لائن کا ایشو چھیڑنے پر تبصرہ کرتے ہوئے احسان اللہ احسان کا کہنا تھا کہ 'اس موضوع پر بات کرنے سے بظاہر لگ رہا ہے کہ تحریک افغان حکومت اور دیگر پشتون قوتوں کو پیغام دینا چاہتی ہے کہ اس معاملے پر ان کے موقف میں بھی زیادہ فرق نہیں ہے۔'
واضح رہے کہ افغانستان ابتدا ہی سے ڈیورنڈ لائن سرحد کو تسلیم کرنے سے انکار کرتا رہا ہے۔
یہاں یہ امر بھی اہم ہے کہ دو دن پہلے تحریک طالبان پاکستان کی طرف سے ایک بیان جاری کیا گیا تھا جس میں امجد فاروقی اور القاعدہ برصغیر کے رہنما استاد احمد فاروق گروپ کی طرف سے تنظیم میں شمولیت کا دعوی کیا گیا تھا اور اس سلسلے میں ان کی تصویریں بھی جاری کی گئی تھیں۔
اس سے پہلے ٹی ٹی پی سے جدا ہونے والے محسود طالبان کے ایک دھڑے نے بھی دوبارہ سے تحریک میں شامل ہونے کا اعلان کیا تھا۔