حکومت نے عید قربان کے لیے بہت زیادہ ایس اوپیز بنائے اور عوام کو ہر وقت باور کرانے کی کوشش کی کہ سماجی دوری رکھیں، لوگوں سے میل جول کم کریں کیونکہ چھوٹی عید کے بعد کرونا وائرس کے مریضوں کی تعداد زیادہ ہوگئی تھی۔
اگر اب بے احتیاطی کی جاتی تو حالات اس سے بھی زیادہ بگڑ سکتے تھے کیونکہ دنیا بھر میں کرونا وائرس کی دوسری لہر کے بارے میں بات چیت ہورہی ہے کہ اب اس بیماری کی دوسری لہر آنے کو ہے ۔
عید سے پہلے پنجاب میں لاک ڈاؤن کیا گیا اور پشاور میں تاجر برادری اور ڈپٹی کمشنر کے مابین اسی حوالے سے آنکھ مچولی ہوئی ۔جس میں تاجر برادری کے یونین کا صدر حوالات پہنچا اور پھر عید آگئی ۔
عوام کو جس طرح سمجھایا گیا تھا اس کے برعکس عوام نے کام کیا اور کسی بھی طرح کسی بھی ایس او، پی پر عمل نہیں کیا ۔ عید کے بڑے بڑے اجتماعات کیے گئے، لوگوں نے خوب ڈٹ کر سماجی دوری کا ستیاناس کیا اور خوب محفلیں جمائیں کیونکہ عید قربان میں لوگ زیادہ پارٹیاں کرتے ہیں گوشت کی فراوانی ہوتی ہے، یوٹیوب سے ریسیپیز لی جاتی ہیں اور خواتین کے ساتھ مرد حضرات بھی اس کارخیر میں حصہ ڈالتے ہیں ۔
یہ عید قربان کا خاصہ ہوتا ہے مگر چونکہ اس دفعہ صورتحال پچھلی عیدوں سے مختلف تھی اس کے باوجود لوگوں نے وہی روش اپنائی ۔
لوگ اپنے خاندانوں تک محدود رہے مگر ایک بات پھر بھی ان کے ذہنوں پر چھائی رہی۔ بہت لوگوں نے جانوروں کی قربانیاں کیں مگر اپنی 'میں' کو کوئی قربان نہیں کرپایا ۔
کرونا وائرس، لاک ڈاؤن اور حکومتی احکامات ان سب باتوں کے ساتھ ساتھ اگر دیکھا جائے تو چھوٹی عید کے ساتھ بڑی عید کا بھی وہ مزہ جاتا رہا ہے جو عیدوں کا خاصہ ہوا کرتا تھا۔
چھوٹی عید اگر روزوں کے بعد انعام ہے تو بڑی عید ہمیں ابراہیم علیہ السلام اور اسماعیل علیہ السلام کی عظیم قربانی کی یاد دلاتی ہے مگر اب یہ اسلامی تہوار ہماری اناؤں اور روئیوں کے باعث تہواروں کے موافق لگتے ہی نہیں ہیں ۔
ہر شخص سیر سے سوا سیر بن گیا ہے کوئی بھی کسی مسئلے پر سر جھکانے کو تیار ہی نہیں ہوتا اور چھوٹے سے چھوٹا مسئلہ رائی کا پہاڑ بن جاتا ہے ۔
عیدوں پر جو خوشیاں ہوتیں تھیں اب وہ خاک ہوگئی ہیں ہر شخص اپنی خودنمائی اور خود پرستی کا شکار ہوگیا ہے انہیں دوسرا کوئی نظر ہی نہیں آتا۔
اس عید قربان پر میں نے دیکھا کہ لوگ ایک دوسرے سے بیزار بیزار سے لگے ہر کوئی اپنی اہمیت چاہ رہا تھا۔
دوستوں سے اس عید پر باتیں ہوئیں تو اُن کا کہنا تھا کہ چھوٹی عید پر اس دفعہ بہت مزہ آیا کسی کے گھر نہیں گئے کیوں کہ کرونا وائرس تھا اور ہم کئی برسوں سے منصوبہ بندی کر رہے تھے کہ سب سے کنارہ کش ہوجائیں ۔اس دفعہ کرونا نے یہ موقع فراہم کردیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اب بڑی عید پر بھی وہی حال رہا۔قربانی کی اور گھر میں سوتے رہے ۔ تو میں سوچ رہا تھا کہ کیا یہ قربانی اللہ کو قابل قبول ہوگی کہ مہنگے جانور لے کر قربان کردیئے جائیں مگراناؤں کی کوئی قربانی نہ ہو؟ وہ عید پر بھی مزید بڑھ جائیں ۔
تو کیا یہ قربانی اللہ کے پاس پہنچتی ہے کیونکہ ان تہواروں میں آصل چیز تو لوگوں کے پاس جاکر اُن سے ملنا ہوتا ہے ان کے دکھ درد کو محسوس کرنا ہوتا ہے ورنہ پورے سال کسی کے پاس وقت ہی کہاں ہوتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے ہاں جائیں عید قربان یعنی قربانی کی عید قربانی سے مزین ہوتی ہے۔
اگر دیکھا جائے تو بڑی عید میں اصل قربانی باپ اور بیٹے کی گفتگو تھی۔اور دنبے کا ذبیحہ اس کا فدیہ تھا۔
ہمیں دنبہ تو یاد رہا گفتگو یاد نہ رہی اس لیے ہماری عیدوں میں چاشنی نہیں رہی حالانکہ پہلے کی نسبت اب اچھے کپڑے اور جوتے پہنے جاتے ہیں مگر جس سے بھی پوچھا جائے وہ یہی کہتا ہے کہ عید کا مزہ نہیں رہا ۔
اس سال بھی عید گزرگئی پتہ نہیں اگلے سال ہم اس کے لیے زندہ بھی ہوں گے کہ نہیں ۔اگلی قربانی کے لیے اللہ تعالی ہمیں موقع فراہم کرے گا بھی کہ نہیں ۔
خواہش ہے کہ اللہ ہمیں عیدوں پر جانوروں کی قربانی کے ساتھ میں کی قربانیوں کی بھی توفیق دے۔