شیخ رشید کی احتسابی پیش گوئی

جب اخبارات اور ٹی وی چینلز چیخ چیخ کر احتساب، جیل، سزا و جزا کی خبریں چلائیں اور چھاپیں گے اور گھریلو نقاد دوبارہ سے تعریفیں کرنے لگیں گے تو ماحول بن سکتا ہے۔ جن پارٹیوں کے سربراہ دوبارہ سے کٹہروں میں کھڑے ہوں گے ان کو اپنی پڑ جائے گی۔

شیخ رشید (سوشل میڈیا)

شیخ رشید کے پاس ووٹ ہوں یا نہ ہوں خبریں ضرور ہوتی ہیں۔ اسی وجہ سے ان کا کام اب خطہ پوٹھوہار کے پیر پگاڑہ سا لگتا ہے۔ وہ بھی مستقبل کے بارے میں پیش گوئیاں کر کے خود کو سیاست میں زندہ بھی رکھتے تھے اور یہ تصور بھی گہرا کرتے تھے کہ وہ بھائی لوگوں کے معتمد خاص ہیں۔

شیخ صاحب نے عید کے بعد 'دونوں اطراف' گرفتاریوں اور شہباز شریف اور حمزہ شریف کے مقدمات کے بارے میں جو منظر کشی کی ہے اس میں تمام تر مبالغے کے باوجود اس حد تک صداقت موجود ہے کہ اس پر سنجیدگی سے غور کیا جا رہا ہے۔

یہ تحریر مصنف کی آواز میں آپ یہاں سن بھی سکتے ہیں

 

اس غور کی وجوہات میں سے سب سے اہم یہ ضرورت ہے کہ کسی طرح سے عمران خان حکومت کا نام کچھ اتنا روشن کر دیا جائے کہ تنقید کی تاریک تہہ ہلکی ہو پائے۔ دوسرے الفاظ میں حکومت کچھ قابل لگے۔ عمران خان بطور وزیر اعظم یہ توکہہ سکیں کہ بےشک معیشت کا کباڑہ ہوا اور چینی، آٹا، کھانے پینے کی اشیا لوگوں کی پہنچ سے دور ہو گئیں مگر انہوں نے احتساب کے معاملے پر قوم سے کیا ہوا وعدہ پورا کر دکھایا۔

اگر آٹھ، دس کو جیل میں ڈالنے اور شہباز شریف، حمزہ شہباز کو نشان عبرت بنانے سے عمران خان کی ساکھ بحال ہو سکتی ہے تو اس کو کر دینا چاہیے۔ ویسے بھی قربانی کا مہینہ ہے۔ بکرے نہیں تو بندے ہی سہی۔ سیاسی جنت پانے کے لیے اگر یہ جتن بھی نہ کر پائیں تو پست حوصلہ کی بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔

ہر گھر سے اٹھنے والا لعن طعن کا طوفان سب کو گندا کر دے گا اور پھر اس کو روکنا ممکن نہ ہوگا۔ لیکن پھر معاملہ صرف عمران خان کی ساکھ کو دوبارہ سے زندہ کرنے کا نہیں ہے۔ عمران خان ذاتی طور پر سیاسی عزت یا ہتک کو ہمیشہ کے لیے ذہن سے نکال چکے ہیں۔ ان کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ نہ تو تنقید کو خاطر میں لاتے ہیں اور نہ اس دھمکی سے متاثر ہوتے ہیں کہ عوام میں ان کے بارے میں پھیلی ہوئی داستان ناکامی ان کو بڑا سیاسی نقصان پہنچا سکتی ہے۔

اقتدار میں دو سال گزارنے کے بعد اب وزارت عظمی کی چمک ان کو متاثر نہیں کرتی اور ضرورت پڑنے پر وہ سب کچھ دریا برد کر کے آرام سے برطانیہ میں اپنی اولاد کے ساتھ چھٹی منا سکتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ اس بیانیے میں بھی رشیدی عنصر بھاری ہو اور عمران خان سے جوڑی جانے والی بےنیازی اتنی واضح نہ ہو مگر پھر بھی یہ اس حد تک حقیقت پر مبنی ہے کہ عمران خان کو عوامی رائے اور تنقید سے کوئی خاص پریشانی نہیں ہوتی۔ وہ اپنے آپ میں گم ہیں اور جب کبھی اس مصروفیت سے فرصت ملتی ہے تو مراد سعید جیسے پیروکار ان کو دوبارہ سے یہ بتا کر سکون مہیا کر دیتے ہیں کہ ان جیسا نہ ہے، نہ ہو گا اور نہ ہی ہونے دیں گے۔

اصل مسئلہ عمران خان کے ساتھ چپکے ہوئے وہ مفادات ہیں جن کا عمران خان کے بغیر گزارہ نہیں۔ جنہوں نے اس تمام گورکھ دھندے کو اس وجہ سے ترتیب دیا تھا کہ اس کے ذریعے وہ ملک میں بنیادی سیاسی تبدیلیاں لا کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے طاقت کے توازن کو تبدیل کر دیں گے۔

اس تمام نظام اور تجربے کی روح اس مفروضے میں بند تھی کہ عمران خان کے آتے ہی پہلے چند ماہ میں سب کچھ نیا دکھنے لگے گا اور پرانے سیاست دانوں کا دانہ پانی تا حیات کے لیے ختم ہو جائے گا۔ وہ نہ ہو سکا۔ سب کچھ الٹ گیا۔

عوام کو دودھ و شہد تو کیا ملنا تھا جو روکھی سوکھی کھا رہے تھے وہ بھی ہاتھ سے چھن گئی۔ کرپشن زدہ دور کو بھلانے کی بجائے خلق خدا اس کو یاد کرنے پر مجبور ہو گئی ہے۔ پنجاب سے لے کر بلوچستان تک احتجاج اور ناراضگیوں کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔ نہ ملک کے منہ میں ترقی کے دانت ہیں اور نہ قوم کے پیٹ میں خوش حالی کی آنت۔ اب تو بازاروں اور گلیوں میں لوگ جھولیاں اٹھا کر بددعائیں دے رہے ہیں۔

اس تمام معاملے کو کب تک میڈیا کی مثبت رپورٹنگ کے ذریعے روکا جائے گا؟ کب تک پولیس سوشل میڈیا پر اپنے غصے کے غیرتہذیبی اظہار کرنے والوں کو اٹھا کر جیلوں میں بند کرتی رہے گی؟ کیا ہر پیشی پر مطیع اللہ جان کو اٹھا کر فتح جنگ کے پہاڑوں میں چھوڑ دیا جائے گا؟

ظاہر ہے ریاست طاقتور ہے یہ سب کچھ کر سکتی ہے لیکن پھر بھی موجودہ حکومت کی عزت و وقار میں اضافہ نہیں ہو گا۔ نہ ہی حکومتی رزلٹ کارڈ میں لکھے 'صفرے' A' گریڈ بدلیں گے۔ ایسے حالات میں عمران خان کو احتساب کے ٹورنامنٹ میں زبردستی کی ٹرافی دلوا کر اس مشکل سے وقتی طور پر نکلا جا سکتا ہے اور اگر عوام میں اس کی پزیرائی کا کچھ بندوبست ہو گیا (جو کہ یقینا ہو جائے گا، جنرل عاصم باجوہ کے مالکان سے تعلقات اور کس دن کام آئیں گے) تو اس طرح کے تین چار دنگل اور کروا کر سال ڈیڑھ مزید تسلی سے رہا جا سکے گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اگرچہ احتساب ایک گھسا پٹا موضوع ہے اور سب کو معلوم ہے کہ اس کے تمام میچ فکس ہوتے ہیں مگر مجبوری کے اس عالم میں انہی چلے ہوئے راستوں پر دوبارہ سے ایک ایسی ریس کا بندوبست ہو رہا ہے کہ جس میں عمران خان کے علاوہ سب کو ہروانا اور ان کو جتوانا ہے۔

کیا یہ داﺅ کامیاب ہو گا؟ اس سوال کا جواب اس امر پر منحصر ہے کہ آپ کامیابی کس کو کہتے ہیں۔ اگر ملک کی ترقی، اندرونی پریشانیوں کے خاتمے اور معیشت کی بحالی کا نام کامیابی ہے تو یقینا نئے احتسابی ٹوٹے پرانی فلموں کی طرح فیل ہوں گے۔ اور اگر کامیابی سے مراد ’ڈنگ ٹپانا‘ یا اپنی مدت ملازمت کو جیسے تیسے پورا کر کے بچ نکلنا ہے تو ان اقدامات سے کامیابیاں حاصل ہو سکتی ہے۔

جب اخبارات اور ٹی وی چینلز چیخ چیخ کر احتساب، جیل، سزا و جزا کی خبریں چلائیں اور چھاپیں گے اور گھریلو نقاد دوبارہ سے تعریفیں کرنے لگیں گے تو ماحول بن سکتا ہے۔ جن پارٹیوں کے سربراہ دوبارہ سے کٹہروں میں کھڑے ہوں گے ان کو اپنی پڑ جائے گی۔ حکومت خود کو کامیاب قرار دے گی۔ عوام اس بندر تماشے کو پھر سے دیکھنا شروع کر دے گی۔

ماہ سال میں اور سال نئے مواقع میں تبدیل ہو جائیں گے۔ اس کے بعد پاکستان کا کیا بنتا ہے وہ کوئی فکر کی بات نہیں ہے۔ جیسے چل رہا ہے ویسے چلتا رہے گا اور اگر نہیں بھی چلے گا تو آنے والے کی ذمہ داری ہو گی جانے والوں کی نہیں۔ اب کوئی بابا رحمتے یا جلیل القدر راحیل سے یہ پوچھتا ہے کہ انہوں نے کیا اور کیا کہا تھا؟

لہذا عمران خان کوبچانا ہے چاہے اس کے لیے سارا ریوڑ ہی کیوں نہ قربان کرنا پڑے۔ یہ پاکستان کی ضرورت نہیں وقت کا تقاضا ہے۔ اس حد تک شیخ رشید صحیح کہتے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ