پاکستان میں چین کے سفیر لی جن ژاو ٹوئٹر پر تقریباً ہر مشہور یا متحرک پاکستانی کے اکاؤنٹ کو فالو کرتے ہیں۔ وہ ہر کچھ دن بعد سوشل میڈیا پر کوئی ایسی ویڈیو پوسٹ کرتے ہیں جس میں ٹیکنالوجی اور انفراسٹرکچر کے میدان میں چین کی سبقت دکھائی گئی ہو۔ ابھی کچھ دن پہلے ہی انہوں نے ایک ایسی ہی ویڈیو پوسٹ کی جس میں دکھایا گیا کہ چین کی ہائی سپیڈ ٹرینیں ایسی متوازن اور ہموار ہیں کہ ٹرین کی کھڑکی پر رکھا سکہ بھی بالکل ساکت و جامد ہے۔سبحان اللہ۔ یہ ہمارے اس پڑوسی کی ٹرین ہیں جو کہ آج سے تقریباً 50 سال قبل پی آئی اے کے جدید جہاز کو بیجنگ آمد پر رشک کی نگاہوں سے دیکھ رہے تھے۔ اب ہم چین کی ٹیکنالوجی کی ویڈیوز دن رات دیکھتے ہیں اور سر دھنتے ہیں۔ ہماری ٹرینیں آج بھی ’انگریزوں کے زمانے‘ کی وراثت کو انجوائے کررہی ہیں۔
پاکستان ریلوے کو حال ہی میں چند شدید نوعیت کے حادثات کا سامنا رہا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق پچھلے ایک سال میں تقریباً 47 ٹرین حادثات ہوئے ہیں جن میں تین درجن سے زائد مسافر اور پاک ریلوے کا عملہ جاں بحق ہوچکے ہیں جبکہ درجنوں زخمی ہوئے۔ ایسا نہیں کہ شیخ رشید سے پہلے پاک ریلوے کی تاریخ حادثات سے خالی تھی۔ خواجہ سعد رفیق کے دور کے آخری سال یعنی 2018 کے درمیان صرف ایک سال میں ریلوے کو 67 حادثات سہنے پڑے۔
ریلوے حادثات کی تعداد کو سیاسی مقابلے بازی کے لیے استعمال کرنا سراسر زیادتی ہوگی کیونکہ سینکڑوں مسافروں کی جان ریلوے کے عملے کے ہاتھوں میں ہوتی ہے۔ ریلوے ملازم خواہ وہ کسی بھی سیاسی لیڈر کا چاہنے والا ہو، وہ کم از کم جان بوجھ کر ریلوے حادثات کی سازش نہیں کرسکتا۔ رہی بات ٹرینوں کے حادثات کی تو یہ قصہ سراسر غفلت، ترجیحات میں عدم توازن اور شوبازی کے چکر میں اصل کام کی جانب عدم توجہی کا ہے۔
پچھلے ایک سال میں قریب درجن بار ایسا ہوا کہ پاک ریلوے کی ٹرین پٹری سے اتر گئی۔ اس کا علاج ٹرینوں اور ٹریک کی اپ گریڈیشن ہے۔ ٹرین لیٹ ہوجائے تو پریشر ٹرین ڈرائیور ہی نہیں پورے عملہ پر آتا ہے۔ ریل گاڑی کو اس کی استطاعت سے زیادہ دوڑانے کی کوشش میں ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ ٹرینیں لیٹ کیوں ہوتی ہیں۔
پاکستان ریلوے آج بھی گزرے وقتوں میں بنائے گئے ٹرین سگنل سسٹم پر اکتفا کیے بیٹھی ہے۔ ٹرین ملک کے مختلف شہروں کے اندر اور باہر سے گزرتی ہے، جہاں کئی سٹیشنز اور پھاٹک ہیں۔ اصولاً ہونا تو یہ چاہیے کہ ٹرین اپنی مقررہ تیز رفتار کو قائم رکھتے ہوئے ان پھاٹکوں اور ان سٹیشنز سے گزر جائے جہاں رکنا مقصود نہیں، مگر ایسا نہیں ہوتا۔ اندرون شہر سے گزرتے ہوئے ٹرینوں کی رفتار قدرے کم کردی جاتی ہے۔ حادثات سے بچاؤ کے لیے سٹیشنز پر بھی ٹرینیں اپنی رفتار سست کرلیتی ہیں۔ آج بھی آپ کو پاکستان میں ٹرین کے سفر کے دوران سرخ جھنڈی لہراتا ریلوے کا ایک ملازم نظر آئے گا۔ آنکھوں کو یہ کلاسیکل منظر بھلا لگتا ہے مگر ذرا سوچیں ٹیکنالوجی کے اس دور میں ہماری ٹرینیں آج بھی حادثات کا شکار کیوں ہورہی ہیں؟ اور حادثات بھی ایسے کہ جن سے بچنے کا سسٹم ریلوے کے پاس موجود ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستان ریلوے نے 2017 میں اعلان کیا تھا کہ اس نے جدید ’ٹرین اپروچنگ وارننگ سسٹم ایٹ لیول کراسنگ‘ تیار کرلیا ہے۔ ساتھ ہی پاکستان ریلوے نے ٹرینوں کے آپس میں ٹکرانے جیسے حادثات سے بچاؤ کے لیے ’ٹرین کولیژن اوائیڈنگ سسٹم‘ بھی دو سال پہلے ہی بنا لیا تھا۔ ان میں سے پہلے سسٹم کو پاک ریلوے نے ابتدائی طور پر پانچ مختلف مقامات پر نصب کیا تھا۔ ٹرین اپروچنگ سسٹم جی پی ایس پر مبنی ہے جس کی مدد سے ریلوے پھاٹک پر ٹرین آنے سے بہت پہلے وارننگ الارم بج جاتے ہیں۔ پھاٹک کے قریب موجود پیدل اور گاڑیوں کے مسافروں کو وارننگ الارم اور لائٹس کے ذریعے پھاٹک سے دور رہنے کی تنبیہ ہوتی ہے۔ اس سسٹم کے سینسرز تین کلو میٹر تک لگائے گئے جو کہ ٹرین کی آمدورفت کی اطلاع دیتے ہیں۔ ٹرین چلانے والا عملہ اور گراونڈ عملہ دونوں کیمرہ لنک کے ذریعے پھاٹک کے مناظر دیکھ سکتے ہیں۔ یہ سسٹم ان چھوٹے موٹے حادثات سے بچنے میں بھی مددگار ہوتا جن میں بعض لوگ بھول چوک اور کبھی زیادہ ہوشیار بننے کے چکر میں ٹرین کے رستے میں آجاتے ہیں۔
یاد کریں شیخوپورہ میں 2013 میں ہونے والا وہ حادثہ جس میں موٹر سائیکل رکشہ ٹرین کے سامنے آگیا اور کچلا گیا۔ رکشے میں سوار 14 مسافر تو جان سے گئے مگر ایسے حادثات روکنے کے لیے سسٹم بن گیا۔ آفرین ہے پاک ریلوے پر کہ جس کے پاس ٹیکنالوجی تو موجود ہے مگر اسے سسٹم میں لانے کے لیے نجانے کتنے اور حادثات کا انتظار ہے۔
اب ذرا یہ بھی سن لیں کہ پاک ریلوے نے سابق وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کے دور میں ’ٹرین کولیژن اوائیڈنگ سسٹم‘ یعنی دو ٹرینوں کے آپس میں ٹکراو سے بچاؤ کا سسٹم بنا لیا تھا، مگر اسے آپریشنل نہ کیا جاسکا۔ اس سسٹم کے تحت ٹرین کے عملے کو ہر ٹرین میں لگے ریڈار کی مدد سے دوسری ٹرین کی لوکیشن اور اس کی حرکت کا مکمل بروقت علم ہوتا ہے۔ ٹرین ڈرائیور کو یہ سسٹم بروقت آگاہ کرسکتا ہے کہ کون سی ٹرین اس کے قریب سے کس ٹریک سے گزر رہی ہے اور آگے آنے والے سٹیشن پر کون سی ٹرین کس ٹریک پر کھڑی ہے۔ یعنی اگر یہ سسٹم اس وقت رائج ہوجاتا تو یقیناً رحیم یار خان ٹرین حادثے سے بچا جا سکتا تھا۔ دو درجن زندگیاں خاک و خون نہ ہوتیں۔
پاک ریلوے کے پاس پھاٹکوں کو حادثات سے محفوظ بنانے کی ٹیکنالوجی موجود ہے، پاک ریلوے اپنے پاس ٹرینوں کے آپسی ٹکراو سے بچنے کا سسٹم بھی رکھتا ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ وزارت ریلوے نے نئی حکومت بنتے ہی نئی ٹرینوں اور نئے روٹس کا تو اعلان کردیا مگر کرنے والا اصل کام یعنی مسافروں کی حفاظت کو پس پشت ڈال دیا۔
ایک اور خبر تو ابھی کچھ دن پہلے کی ہی ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے چین کے ساتھ ’ایم ایل ون‘ یعنی مین ریلوے لائن آف پاکستان کے معاہدے پر دستخط کیے۔ اس منصوبے پر عمل بھی جلد شروع ہو جائے گا جس کے تحت پاکستان بھر میں پھیلے ریلوے ٹریک اور پرانی ریل گاڑیوں کی حالت زار کو اپ گریڈ کیا جائے گا، نئی فریٹ ٹرینیں چلیں گی اور بہت سی نئی مسافر ٹرینیں بھی۔
مان لیا کہ چین سی پیک کی وجہ سے پاکستان میں سڑکوں اور ٹرینوں کے سسٹم کو اپنے مفاد کی خاطر اچھا بنا رہا ہے، مگر کیا یہ ضروری ہے کہ ہم اپنے لوگوں کی جانوں کی حفاظت کا سسٹم لگانے کے لیے بھی چین کا بے چینی سے انتظار کریں۔ کہیں ہم بھی وہی سیانا بیمار بڈھا تو نہیں جو یوں تو خود بھی اٹھ کر پانی پی سکتا ہے مگر ہسپتال کا بل حلال کرنے کے لیے نرس کا کئی گھنٹے انتظار کرتا ہے کہ وہ آئے گی تو وہی پانی حلق میں اتارے گی۔