ہم نے پڑھا تھا کہ دوسری عالمی جنگ تک چرند و پرند نے پیغام رسانی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ چند دہائیاں پہلے تک حکمران ایک دوسرے کو کبوتروں کے ذریعے نہ صرف پیغامات بھیجا کرتے تھے بلکہ اپنے جنگی مشن کی ترسیل کے لیے پرندوں کی باضابطہ تربیت بھی کرائی جاتی تھی جو کسی جانی نقصان کے بغیر اپنا کام انجام دیا کرتے تھے۔
موجودہ دور میں انٹرنیٹ نے دنیا کے بیچ فاصلے مکمل طور پر مٹا دیے ہیں اور ترسیل کا نظام اتنا بہتر اور تیز ہوگیا ہے کہ چند سیکنڈز میں دنیا کے ایک سرے پر ہونے والا واقعہ دوسرے سرے تک پہنچ جاتا ہے۔ انٹرنیٹ کی مہربانی کہ پرندوں پر پیغام رسانی کا یہ بوجھ ختم تو ہوگیا۔
ٹیکنالوجی کے باعث انسانوں کے بیچ فاصلے ختم تو ہوگئے لیکن بعض پڑوسی ملکوں کے مابین وہی ’مرغے کی ایک ٹانگ‘ والا قصہ کبھی نہ ختم ہونے والا قضیہ ہے۔ ان کے بیچ فاصلے مزید بڑھ رہے ہیں۔ بھارت اور پاکستان کے پاس نئی ٹیکنالوجی ہے، دونوں جوہری قوتیں ہیں اور دونوں کے پاس لاکھوں افراد پر مشتمل تربیت یافتہ فوج ہے۔
ایک دوسرے کی سراغ رسانی کے لیے منفرد اور منظم خفیہ ادارے قائم ہیں۔ ایسے میں جب ’ جاسوس کبوتر‘ پکڑنے کی خبریں آتی ہیں تو ہر کوئی چند لمحوں کے لیے یہ سوچنے پر ضرور مجبور ہوجاتا ہے کہ اس کبوتر کی کیا حالت ہوگی جو بےچارہ ڈیڑھ ارب آبادی کی دشمنی کے بیچ میں پھنس گیا ہے۔ ایک ایسی جگہ جہاں انسانوں کو زندہ کچل دیا جاتا ہے اور کہیں سے اس کے خلاف چوں بھی نہیں ہوتی تاہم کبوتر کی گرفتاری قومی چینلز کا واحد موضوع بن جاتا ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ پہلے ایسی احمقانہ خبروں پر برِصغیر کے عوام پر دہشت طاری ہوجاتی تھی اب کی بار کبوتر کی گرفتاری پر بیشتر لوگ ہنس رہے ہیں، خوب ہنس رہے ہیں اور ذہنی فتور سے بیمار سیاست دانوں کی سوچ کا مذاق بھی اڑا رہے ہیں۔
دونوں ملکوں کے کروڑوں عوام کو کرونا (کورونا) وائرس کے دہشت زدہ ماحول میں تفریح کا ایک موقع نصیب ہوا۔ البتہ دنیا کے اکثرجاسوسوں کو یہ فکر بھی لاحق ہوگئی ہے کہ کبوتروں کی دوبارہ فعال جاسوسی کے باعث کہیں وہ اپنی ملازمت سے محروم نہ ہوجائیں۔ ویسے بھی کرونا کے باعث لاکھوں ملازمتیں ختم ہو رہی ہیں اب کبوتروں کی ہی کمی رہ گئی تھی۔
سوال یہ ہے کہ جوہری طاقت والے ملک پاکستان کے پاس انسانی جاسوسوں کی کیا کوئی کمی ہے کہ کبوتروں سے کام لیا جانے لگا ہے؟ اگر انسانی جاسوسوں کی کمی ہے تو کیا ڈرون اور سٹیلائٹ ٹیکنالوجی سے بنائے جانے والے مشینی جاسوس بھی ہم سب کا بھرم ہی ہے جوٹوٹ گیا یا پھر ترکی ڈرامے ’ارطغرل‘ سے عمران خان اتنے متاثر ہوئے ہیں کہ وہ ریاست مدینہ کو واپس اس دور میں لیجانا چاہتے ہیں جب کبوتر پوسٹ مین کا کام کیا کرتے تھے۔ یا پھر بی جے پی کی حکومت کے جذبات ابھارنے کے تمام داؤ ختم ہوگئے ہیں کہ اب کبوتروں کی شامت آگئی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
آپ نے بھی سنا ہوگا کہ 25 مئی کو بھارت کے ایک خبر رساں ادارے نے یہ خبر دی کہ جموں و کشمیر میں کٹھوعہ میں پاک بھارت سرحد پر بھارتی فوج کو اس وقت ایک بڑی کامیابی حاصل ہوئی جب اس نے پاکستانی تربیت یافتہ جاسوسی کبوتر کو ’گرفتار‘ کیا۔ گاؤں والوں نے کہا کہ کبوتر کی ایک ٹانگ پر دائرہ بندھا ہوا تھا جس پر کچھ نمبر اور عبارت لکھی ہوئی تھی۔ مقامی پولیس کو شک ہے کہ یہ کسی کے نام خفیہ پیغامات ہیں جن کو بھارتی سراغ رساں بےنقاب کرنے اور سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
یہ پہلا موقعہ نہیں ہے جب پاک بھارت سرحد پر کبوتروں کو سرحد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے گرفتار کیا گیا ہے۔ پرندوں کے ذریعے نفسیاتی جنگ کا یہ کھیل کافی عرصے سے جاری ہے۔ گذشتہ سال جون میں بھی سرحد کے قریب منوال گاؤں میں ایک اور ’جاسوس‘ کبوتر کو پکڑنے کی خبر آئی تھی جس کے بارے میں بھارتی اخباروں نے لکھا تھا کہ اس کے بدن پر اردو میں جاسوسی عبارت لکھی ہوئی تھی۔
سرد جنگ کی ایسی درجنوں مثالیں موجود ہیں جب امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے نے سوویت یونین کے خلاف جاسوسی کے لیے کبوتروں کا انتخاب کیا تھا بلکہ حال میں اس کا دستاویزی انکشاف بھی ہوا ہے کہ امریکہ نے ’کبوتر مشن‘ کی ایک مہم کے تحت انتہائی اہمیت کے حامل بعض مقامات کی نشاندہی کے لیے پرندوں سے فوٹوگرافی کروائی تھی۔
فاختاؤں کے ذریعے دشمن کی خفیہ بات چیت سننے کے آلات نصب کروا دیے تھے اور ڈولفن نے زیر سمندر جاسوسی مشن کو کامیاب بنایا تھا۔ پینٹاگن کی عمارت میں اس وقت بھی ہیرو کہلانے والے ایک کبوتر کی تصویر رکھی ہے جس کا نام صدر ولسن رکھا گیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس نے پہلی عالمی جنگ کے دوران 5 اکتوبر 1918 کو امریکی فوجی کمک کو بچانے کے لیے ایک اہم پیغام پہنچایا تھا جس سے امریکہ کے ہزاروں فوجیوں کی جان بچائی گئی تھی۔
دوسری عالمی جنگ کے دوران برطانیہ نے ایم آئی 14 ڈی کے تحت خفیہ کبوتر سروس چلائی تھی جس کے تحت پیراشوٹ کے ذریعے کبوتروں کو یورپ کے مختلف شہروں میں سراغ رسانی کے لیے اتارا گیا تھا۔ لیکن یہ وہ زمانہ تھا جب موبائل یا انٹرنیٹ عوام کے ہاتھوں میں نہیں آیا تھا۔
بہرحال جنگ ہو یا امن، انسانوں کے علاوہ چرند و پرند نے بھی ہر دور میں انسانوں کی مدد کی ہے گو کہ انسانی لالچ نے آلودگی سے ان کا اب قافیہ بھی تنگ کیا ہے۔
ڈیجٹیل ٹیکنالوجی کے اس دور میں کبوتروں سے کام کروانے یا جاسوسی کروانے کی بات پوری طرح ہضم نہیں ہوتی۔ جہاں انٹرنیٹ کی سہولت موجود ہو، پیغامات بھیجنے کے تیز تر مختلف وسائل میسر ہوں وہاں کبوتروں سے جاسوسی کروانا ذہنی خرافات والی باتیں لگتی ہیں اور ان پڑھ عوام کو گمراہ کرنے کا ہتھیار بھی۔
چند روز پہلے کشمیری صحافیوں کی ایک ویڈیو میٹنگ میں ’جاسوس کبوتر‘ کی گرفتاری کا ذکر آیا تو کسی نے کہا کہ ’چینی فوجی لداخ کے اندر گلوان وادی میں مکانات تعمیر کرنے لگے ہیں اور بھارتی فوج چینیوں سے نمٹنے کی بجائے کبوتر کی تفتیش میں مصروف ہے۔‘ دوسرے نے کہا پاکستان کی آئی ایس آئی کیا اتنی کمزور ہوگئی ہے کہ ان کو کبوتر بھیجنے کی نوبت آئی جبکہ سری نگر سے تعلق رکھنے والے ایک صحافی نے کہا کہ ’خلیل خان تو فاختہ اڑایا کرتے تھے عمران خان تو کبوتر اڑانے لگے ہیں۔ ہمارا یہ بھرم بھی فاختہ کی طرح پُھر سے اڑنے لگا ہے۔‘