خیبرپختونخوا میں وزیر اعلیٰ کے سابق مشیر اور ترجمان اجمل وزیر پر بدعنوانی کے الزام سے متعلق کیس میں ایک بڑی پیش رفت سامنے آئی ہے۔
اشتہاری مہم کا کنٹریکٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہونے والی کمپنی کے منیجنگ ڈائریکٹر محمد فیصل نے انکشاف کیا ہے کہ جن لوگوں نے اجمل وزیر کو ’گھیرنے کے لیے‘ وہ مبینہ جعلی آڈیو تیار کی وہ اب انہیں بھی اس معاملے سے دور رہنے کے لیے دھمکیاں دے رہے ہیں۔
انہوں نے حکومت سے اپیل کی ہے کہ انہیں ان سازشی عناصر سے تحفظ فراہم کیا جائے تاکہ وہ پشاور آ کر انکوائری کمیشن یا خود وزیر اعلیٰ کے سامنے سارے ثبوت پیش کرسکیں۔
اشتہاری کمپنی کے لکھے گئے اس خط، جس کی کاپی انڈپینڈنٹ اردو کے پاس موجود ہے، میں کہا گیا ہے کہ جب سے کچھ لوگوں نے سابق مشیر اطلاعات اجمل وزیرکے خلاف سازش بُنی ہے خود ان کی کمپنی کی ساکھ پر بھی نہ صرف سوالیہ نشان لگ چکا ہے بلکہ کام مکمل کرنے کے باوجود حکومت کی جانب سے کمپنی کو ادائیگیاں نہ ہونے سے وہ بڑی مشکلات کا شکار ہوئے ہیں۔
گیارہ جولائی 2020 کو وزیراعلیٰ محمود خان کے مشیر اطلاعات اجمل وزیرکو ان کے عہدے سے ایک مبینہ آڈیو ٹیپ کی بنیاد پر ہٹا دیا گیا تھا جس میں اجمل وزیر ایک اشتہاری کمپنی کے نمائندے سے مبینہ طور پر اشتہاری مہم دینے کے بدلے کمیشن مانگ رہے تھے۔ اجمل وزیرکو ہٹا کر ان کی جگہ کامران بنگش کو مشیر اطلاعات کے طور پر کام کرنے کا کہا گیا تھا جبکہ کمیشن کے معاملے پرتحقیقات کے لیے سینیئر بیوروکریٹ کی سربراہی میں تین رکنی کمیٹی کام کر رہی ہے۔
اجمل وزیرکو رواں سال مارچ میں وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا کا مشیر برائے اطلاعات مقررکیا گیا تھا وہ اس عہدے پر کام کو کرنے والے پہلے شخص نہیں ہیں بلکہ ان سے پہلے اس صوبے میں تحریک انصاف کی حکومت بننے کے ان آٹھ سالوں میں پارٹی کے کئی اہم رہنما رہ چکے ہیں جن میں شوکت یوسفزئی، موجودہ گورنر شاہ فرمان، موجودہ سپیکر صوبائی اسمبلی مشتاق غنی اور اجمل وزیرکی جگہ لینے والے کامران بنگش شامل ہیں۔
ان میں سے ایک شوکت یوسفزئی جو اس حوالے سے ہمیشہ خبروں کی زد میں رہے ہیں نے اجمل وزیر کو ہٹائے جانے کے بعد اس بات کی تصدیق کی ہے کہ محکمہ اطلاعات کے شعبہ اشتہارات میں ’کافی سارا کام‘ ہے یعنی ان میں کمیشن لیا جاتا ہے۔ ان کی اس گواہی نے بہت سارے الزامات کو قانونی حیثیت دے دی ہے۔
اشتہاری کمپنی کے ایم ڈی محمد فیصل نے اپنی بات کے حوالے کے طور پر کچھ حقائق کا بھی سہارا لیا ہے جس کے لیے ان کا کہنا ہے کہ جس آڈیو کو ایک فون کال ثابت کرنے کی کوشش ہو رہی ہے وہ کوئی فون کال نہیں بلکہ بہت سارے سرکاری افسروں کے کھلے فورم پر ہونے والی گفتگو ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ آڈیو میں ان کی کمپنی کے ڈائریکٹر یہ واضح کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ انہیں کل رقم میں سے ایک حصہ پیشگی ملنے سے وہ کیسے یہ کام بہت بہتر طریقے سے کر پائیں گے۔
اس بات چیت کے دوران جہاں پر اجمل وزیر ہم پر زور دے رہے تھے کہ کرونا کے خلاف اس مہم کو کامیاب بنانے کے لیے اشتہارات کی تیاری کا کام معیاری ہونا چاہیے وہ حصہ اس آڈیو سے نکالا جاچکا ہے۔
محمد فیصل کا کہنا ہے کہ ان کی کمپنی خالصتا ایک کاروباری اور اشتہاری ادارہ ہے اس لیے وہ کسی بھی قسم کی سیاست اور سازشوں کا شکار یا حصہ نہیں بننا چاہتے۔ اس لیے انہیں اس قسم کے معاملات سے دور رکھنے کے لیے ان کی مدد کی جائے۔
انکوائری کمیشن:
اجمل وزیر کو ہٹائے جانے کے ساتھ ہی وزیراعلی خیبرپختونخوا نے چیف سیکرٹری کو ایک الگ سے خط لکھا تھا جس میں ان سے حقائق معلوم کرنے کے لیے انہیں انکوائری کمیشن مقرر کرنے کا کہا گیا تھا تاکہ نہ صرف اصل حقائق سامنے آسکیں بلکہ یہ کام بروقت بھی ہو۔
خط میں یہ اس معاملے کے لیے ’موسٹ امپارٹنٹ اورارجنٹ‘ کے الفاظ استعمال کئے گئے تھے تاہم ابھی تک اس معاملے کی تحقیقات میں کوئی بڑی پیش رفت سامنے نہیں آئی ہے اور ناں ہی یہ معلوم ہوسکا ہے کہ کمیشن نے اس حوالے سے اب تک اپنے کام میں کیا پیش رفت کی ہے۔ ریٹائرڈ بیوروکریٹ صاحبزادہ سعید کو انکوائری کمیٹی کا سربراہ، ایک ریٹائرڈ جج محمد بشیر اور ایک ریٹائرڈ پولیس آفیسر طارق جاوید کو اس کا حصہ بنایا گیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کمیشن کا کام نہ صرف معاملے کی فارنزک انکوائری کرنا ہے بلکہ یہ بھی معلوم کرنا ہے کہ وہ اجمل وزیر کے دور میں خزانے کو کو کسی قسم کا کوئی نقصان تو نہیں پہنچا ہے جس میں ان کی معاونت سپیشل برانچ، فارنزک لیب، اینٹی کرپشن اور دیگر متعلقہ اداروں نے کرنی تھی۔
اجمل وزیر:
کمیشن مانگنے کے معاملے پراس آڈیو کے سامنے آنے کے بعد اجمل وزیر نے اب تک صرف ایک ہی بار زبان کھولی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ یہ ان کے خلاف ایک بھرپور سازش ہے جو انہیں ان کے کام سے باز رکھنے کے لیے تیار کی گئی ہے۔
اجمل وزیر کاکہنا ہے کہ واضح شکوک وشبہات موجود ہیں کہ یہ آڈیو مختلف اوقات میں کی جانے والی میٹنگز کے دوران ریکارڈ کر کے بنائی گئی ہو اور اس کو ریکارڈ کرنے والا اس دوران سرکاری حیثیت میں وہاں موجود رہا۔ تاہم انہوں نے اس بابت کسی کا نام نہیں لیا تھا۔
دوسری جانب ایف آئی اے کے سائبر ونگ کے کام کے طریقہ کار اور قواعد سے آشنا ایک ماہر کا کہنا ہے کہ اجمل وزیرکو ہٹانے کے لیے جس آڈیو کا سہارا لیا گیا ہے وہ شاید اس قابل نہ ہو کہ اس کی بنیاد پر اسے ’جرم کے ثبوت‘ کے طور پرتسلیم کیا جاسکے۔ ان کا کہنا تھا کہ فرانزک ہونے کے دوران اگر یہ ثابت ہوگیا کہ یہ ایک ایڈٹ شدہ پیس ہے تو پھر شاید اس پر مزید اعتبار نہ کیا جائے۔
اس آڈیو کے علاوہ فوری طور پر منظرعام پر آنے والی ایک ویڈیو متعلقہ اشتہاری کمپنی ایڈمیکس کے ثاقب بٹ کی بھی تھی جس نے اقرار کیا تھا کہ انہیں اشتہار کا کنٹریکٹ دیتے ہوئے کسی نے ان سے کمیشن نہیں مانگا تھا۔
انڈپینڈنٹ اردو کے پاس دستیاب تین دستاویزات سے بھی یہ بات واضح ہے کہ اس حوالے سے ایڈمیکس نامی کمپنی کا چناؤ کرنے والی سٹیئرنگ کمیٹیوں کے اجلاسوں کا سارا عمل شفاف تھا اورحکومت نے اجمل وزیر کو ہٹانے کے دوسرے ہی روز یہ اقرارکر لیا تھا کہ اشتہار قانونی طور پر جاری کیا گیا ہے۔
ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ انکوئری کمیٹی تاخیر کا شکار کیوں ہے؟ اس اہم معاملے میں تفتیش کے حوالے سے پیش رفت کیوں نہیں ہو رہی؟
انکوائری کمیشن کے سربراہ نے تاہم انڈپینڈنٹ اردو کے رابطہ کرنے پر کوئی بات کرنے سے گریز کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اخلاقی طور پر پابند ہیں کہ بات نہ کریں۔