ایک بہت بڑا بحران آزادی رائے کو اپنی لپیٹ میں لینے جا رہا ہے۔ سماج نے معاملے کی سنگینی کو نہ سمجھا تو آزادی رائے بھی بہت جلد سوکھے پتوں کی طرح صرف کتابوں میں ملے گی۔
ہمارے ہاں یہ رجز اکثر پڑھا جاتا ہے کہ آئین نے ہمیں آزادی رائے کا حق دے رکھا ہے لیکن ہماری اکثریت اس حقیقت سے غافل ہے کہ آئین کے جس آرٹیکل میں آزادی رائے کا حق دیا گیا ہے اسی میں آزادی رائے پر چند پابندیاں بھی عائد کی گئی ہیں جن میں ایسی ذو معنی اور مبہم اصلاحات استعمال کی گئی ہیں جن کے معانی کسی کو معلوم نہیں۔ حکومت نے کسی دن سچ میں اس ابہام کو نافذ کر دیا تو آزادی رائے کا دم گھٹ جائے گا۔
اس ابہام کا فائدہ اب تک آزادی رائے نے اٹھایا لیکن اب معاملے کی نوعیت بدل رہی ہے۔ ٹاک شوز کے متن اور اسلوب گفتگو نے سنجیدہ اور باشعور طبقے کو بے زار کر دیا ہے۔ صحافت اپنے اخلاقی وجود کو تھام نہیں پائی اور بہت سے سوالات اس کے دامن سے لپٹ چکے ہیں۔ سوشل میڈیا تو احتیاط، آداب، شائستگی اور قانون کے کسی تکلف سے آشنا ہی نہیں۔ روز پگڑیاں اچھل رہی ہیں اور طفلان خود معاملہ سے فرد کو امان ہے نہ ریاست کو۔ سنجیدہ فکر لوگ محسوس کر رہے ہیں کہ آزادی رائے کی یہ صورت منتشر الخیالی اور ہیجان کا عنوان بنتی جا رہی ہے۔ آزادی رائے پر گرفت کے لیے یہ ایک سازگار ماحول ہوتا ہے۔ یہ گرفت اگر قانون کے عنوان سے ہو تو سماجی رد عمل کا بھی کوئی زیادہ خطرہ موجود نہیں رہتا۔ یہی وہ نازک مرحلہ ہے جس کی دستک اس وقت سنائی دے رہی ہے۔
آزادی رائے اور آزادی صحافت کی ضمانت آئین کا آرٹیکل 19 دیتا ہے۔ لیکن اسی آرٹیکل میں آزادی رائے اور آزادی صحافت کو چند چیزوں سے مشروط کر دیا گیا ہے۔ پیچیدہ صورت حال یہ ہے کہ اقوال زریں کی صورت یہ شرائط تو لکھ دی گئی ہیں لیکن ان کی وضاحت نہیں کی گئی کہ اس کا مطلب کیا ہو گا۔ آئیے ذرا ان شرائط کا ایک جائزہ لیتے ہیں۔
پہلی شرط اسلام کی شان و شوکت ہے۔ حکومت کو یہ حق دے دیا گیا ہے کہ وہ اسلام کی شان و شوکت کے عنوان کے تحت آزادی رائے کو محدود کر سکتی ہے۔ سوال مگر یہ ہے کہ ’اسلام کی شان و شوکت‘ سے کیا مراد ہے؟ قانون کا مزاج یہ ہے کہ وہ کہیں ابہام نہیں چھوڑتا۔ تعزیرات پاکستان میں مرد، عورت، دن، مہینہ تک کی وضاحت اور تشریح کی گئی ہے۔ لیکن یہاں آئین میں کہیں لکھا ہے نہ کسی ذیلی قانون میں کہ اسلام کی شان و شوکت کا مطلب کیا ہو گا۔ مذہب کے باب میں کون سی بحث اس شان و شوکت کے منافی تصور ہو گی۔
بہت سے لوگوں کے ہاں سیکولرزم کی بات کرنا اسلام کی شان و شوکت کے خلاف ہو سکتا ہے اور بہت سوں کے نزدیک بہت سارے وہ فقہی اختلافات بھی اسلام کی شان و شوکت سے منافی قرار پا سکتے ہیں جن کا تعلق خالصتاً نظام تعزیر اور قانون سے ہو۔ سوال یہ ہے کہ اس ابہام کی وضاحت کون کرے گا؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دوسری شرط کا تعلق امور خارجہ سے ہے۔ آئین کہتا ہے کہ آزادی رائے کی آڑ میں ایسا کچھ نہیں کہا جا سکتا جس سے کسی ملک کے ساتھ پاکستان کے دوستانہ تعلقات متاثر ہوتے ہوں اور حکومت اس ضمن میں معقول پابندی عائد کر سکتی ہے۔ سوال مگر یہ ہے کہ ان دوستانہ تعلقات کی حدود و قیود کیا ہیں؟ کیا کسی بھی ملک کی خارجہ پالیسی پر بحث سے روک دینے کا قانون بھی بنایا جا سکتا ہے؟ کیا کسی بھی ملک کے داخلی تضادات پر بات کرنے کی پابندی بھی عائد کی جا سکتی ہے؟
آئین میں ’شائستگی‘ اور ’اخلاقیات‘ کو بھی آزادی رائے پر عائد قدغنوں کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے لیکن یہ وضاحت کہیں نہیں کی گئی کہ Decency اور Morality کا مطلب کیا ہو گا؟ کیا قومی اسمبلی میں عبد القادر پٹیل صاحب کی غزل اور مراد سعید صاحب کا جواب آں غزل دکھانے کی صورت میں آزادی رائے قانون شکنی کی مرتکب ہو جائے گی؟ ان اصطلاحات کی بنیاد پر آئین نے حکومت کو آزادی رائے محدود تر کرنے کی اجازت تو دے دی لیکن اصطلاحات کے معانی اور حدود کیا ہیں یہ کہیں واضح نہیں ہے۔
یہ بالکل وہی معاملہ ہے جیسے آرٹیکل 62 میں رکن پارلیمان کی اہلیت کی شرائط میں اس کا دیانتدار، امین، صاحب فہم، راست باز ہونا تو لازم قرار دے دیا گیا ہے لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ ان بھاری بھرکم اصطلاحات کا مطلب کیا ہو گا۔ اقوال زریں کے کوڑے دستیاب ہیں چاہے تو پارلیمان کی کمر لال کر دیں چاہیں تو آزادی صحافت کی کمر ہری کر دیں۔ بحر ظلمات میں گدھے گھوڑے ایک ساتھ دوڑانے کی گنجائش ہی گنجائش موجود ہے۔
تعزیرات پاکستان کے باب ششم کا تعلق ’ریاست کے خلاف جرائم‘ سے ہے لیکن اس میں دفعہ 124 میں لکھ دیا گیا ہے کہ اگر ’آزادی رائے‘ کچھ ایسا لکھ دیتی ہے یا بول دیتی ہے یا کوئی کارٹون بنا دیتی ہے جس سے حکومت کے بارے میں نفرت یا توہین کے جذبات پیدا ہو سکتے ہوں یا لوگوں کی حکومت سے محبت کم یا ختم ہو سکتی ہو تو ایسی گستاخ ’آزادی رائے‘ کو تین سال تک کے لیے جیل بھیجا سکتا ہے۔ قانون سازوں کے اس کمال کو تو چھوڑ دیجیے کہ حکومت کو ریاست بنا ڈالا، اس کمال پر ہی توجہ فرما لیجیے کہ حکومت نے کسی دن اس دفعہ کا اطلاق کر دیا تو رات کا کھانا کون کہاں کھا رہا ہو گا؟
اس سے پہلے کہ اقوال زریں کا یہ کوڑا قانون کی شکل میں آزادی رائے کی کمر پر برسنا شروع ہو جائے تین کام کر لینے چاہیں۔ اول: اس وقت جو اودھم مچا ہے اس کی تہذیب کرنا ہو گی۔ یہ رویہ زیادہ عرصہ برداشت نہیں کیا جائے گا۔
دوم: ’آزادی رائے‘ کو ملکی قوانین پڑھ اور سمجھ لینے چاہیں تا کہ اسے معلوم ہو آزادی رائے کی آئینی حدود کیا ہیں۔
سوم: ان قوانین میں کہیں ابہام یا سقم ہے تو نظریں چرانے کی بجائے اسے پارلیمان میں لایا جائے، بحث کی جائے اور ابہام اور نقائص دور کر لیے جائیں۔ اس سے پہلے کہ یہ ابہام اپنا وزن آزادی رائے کے پلڑے میں ڈالنے سے انکاری ہو جائیں۔
وقت کم ہے اور ایک خوفناک بحران آزادی رائے کی طرف بڑھ رہا ہے۔