پاکستان نے عالمی سطح پر مالیاتی امور میں بلیک لسٹ ہونے سے بچنے کے لیے افغان طالبان کے خلاف سخت مالی پابندیاں عائد کی ہیں۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق اسلام آباد کی جانب سے یہ اقدام ایک ایسے وقت میں اٹھایا گیا ہے جب افغان طالبان اور امریکہ کے مابین رواں برس فروری میں امن معاہدہ طے پانے کے بعدا ب طالبان افغان حکومت کے ساتھ امن مذاکرات کی جانب گامزن ہیں جبکہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی طرف سے بلیک لسٹ کی تلوار بھی اس کے سر پر لٹک رہی ہے۔
اے پی کے مطابق جمعے کی شب دیر سے جاری کیے جانے والے احکامات میں جن درجنوں افراد پر مالی پابندیاں عائد کی گئی ہیں ان میں طالبان مذاکراتی ٹیم کے رکن ملا عبدالغنی برادر، طالبان کے نائب سربراہ سراج الدین اور حقانی خاندان کے متعدد افراد شامل ہیں۔ پابندی کی زد میں آنے والے گروپوں کی فہرست میں طالبان کے علاوہ دوسرے افراد بھی شامل ہیں۔
ملا برادر افغانستان میں طالبان تحریک کے بانیوں میں سے ہیں۔ جب 2001 میں افغانستان پر امریکہ نے حملہ کیا تو وہ اس وقت روپوش ہوگئے تھے۔ پھر 2010 میں پاکستانی حکام نے انہیں کراچی سے گرفتار کرنے کا اعلان کیا تھا۔ 2013 میں جب طالبان سے مذاکرات کی بحث شروع ہوئی تو طالبان کی طرف سے مذاکرات کے آغاز کے لیے ملا برادر کی رہائی کی شرط رکھی گئی تھی۔ افغان حکومت کی جانب سے بھی ملا برادر کی رہائی کی باتیں کی گئیں اور اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے ملا برادر کی رہائی کا عندیہ بھی دیا تھا مگر رہائی نہ ہو سکی، بالآخر اکتوبر 2018 میں پاکستان نے ملا برادر کو قید سے رہا کیا۔
پاکستان کے سکیورٹی عہدیداروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے پی کو بتایا کہ یہ اقدامات فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی طرف سے بلیک لسٹ میں آنے سے بچنے کے لیے پاکستان کی کوششوں کے ایک حصے کے طور پر اٹھائے گئے ہیں۔
گذشتہ برس پیرس میں ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو گرے لسٹ میں ڈال دیا تھا جب کہ اب تک صرف ایران اور شمالی کوریا کو ہی بلیک لسٹ میں رکھا گیا ہے۔
پاکستانی عہدیداروں نے بتایا کہ پاکستان گرے لسٹ سے باہر نکلنے کی جدوجہد کر رہا ہے۔
دوسری جانب طالبان کی جانب سے پاکستان کے اس اقدام پر فوری طور پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔ اے پی کے مطابق اس گروپ کے بہت سارے رہنماؤں کے پاکستان میں کاروبار اور جائیدادیں موجود تھیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
حقانی نیٹ ورک اور طالبان کے بہت سے رہنما 1980 کی دہائی میں سوویت جنگ کے دوران امریکہ کے اتحادیوں کا حصہ تھے اور کافی عرصے تک پاکستان میں مقیم رہے۔
2001 میں نائن الیون حملوں کے بعد امریکہ کے افغانستان پر حملے کے بعد طالبان کو اقتدار سے بے دخل کر دیا گیا۔ اگرچہ پاکستان نے انہیں اپنی سرزمین پر پناہ دینے سے انکار کر دیا تھا تاہم واشنگٹن اور کابل دونوں ہی اسلام آباد پر انہیں محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرنے کا الزام لگاتے رہے ہیں۔
دوسری جانب پاکستان نے ہمیشہ خطے میں امن کے قیام کے لیے طالبان، افغان حکومت اور امریکہ کے مابین مذاکرات کی اہمیت پر زور دیا ہے۔ ان ہی کوششوں کے نتیجے میں 29 فروری میں واشنگٹن اور طالبان کے مابین امن معاہدہ طے پایا۔
اس معاہدے کا مقصد امریکہ کی افغانستان میں لگ بھگ 20 سال کی فوجی مداخلت کو ختم کرنا اور چار دہائیوں سے جنگ کے شکار افغانستان میں امن بحال کرنا ہے۔
لیکن ایک ایسے وقت میں جب امریکہ اور طالبان ہاتھ ملا رہے ہیں، پاکستان کی جانب سے افغان طالبان پر پابندیاں عائد کرنے کے فیصلے کو طالبان پر دباؤ ڈالنے کے اقدام کے طور پر بھی دیکھا جاسکتا ہے۔
طالبان کے ساتھ ساتھ، ان احکامات میں القاعدہ اور دولت اسلامیہ سے وابستہ تنظیموں پر بھی پابندیاں لگائی گئی ہیں جنہوں نے پاکستان اور افغانستان دونوں میں ہی مہلک حملے کیے ہیں۔
اس کے علاوہ بھارت مخالف گروہوں پر بھی پابندی عائد کی گئی ہے۔
ان پابندیوں کا مقصد تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) جیسی کالعدم تنظیموں کو بھی نشانہ بنانا ہے جن کے ہزاروں جنگجو افغانستان کے دور دراز علاقوں میں روپوش ہیں۔
ٹی ٹی پی نے پاکستان کے خلاف جنگ کا اعلان کیا ہوا ہے اور حال ہی میں اس نے دیگر دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ اتحاد قائم کیا ہے جو پاکستان کی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔