آج ایک خوش گوار صبح تھی۔ آنکھ کھلی تو ایک دوست نے اعلی قسم کی ویڈیو بھیجی ہوئی تھی جس میں کوئی ریپ میوزک والا پنجابی گانا تھا اورایک فرضی سی سرحد نما دیوار کے ادھر ادھر کھڑی دو انتہائی خوبصورت خواتین اسے گاتے ہوئے نظر آ رہی تھیں۔ آنکھ تھوڑی زیادہ کھلی تو معلوم ہوا کہ گانا دو بہنیں گا رہی ہیں جنہیں ہم بشریٰ انصاری اور اسما عباس کے نام سے جانتے ہیں۔ دفتر آ کے بڑی سکرین پہ دیکھا تو آنکھیں پوری کھل گئیں جب لکھا نظر آیا کہ اس گانے کو لکھنے والی بھی انہی کی تیسری بہن نیلم احمد بشیر ہیں۔ گویا اس قدر خوبصورت گانا مکمل طور پہ ہوم پروڈکشن ہے۔
نیلم احمد بشیر اردو کی مشہور افسانہ نگار اور شاعر ہیں۔ ان کی شائع ہونے والی اہم کتابوں میں گلابوں والی گلی، جگنوؤں کے قافلے، لے سانس بھی آہستہ، ستم گر ستمبر، ایک تھی ملکہ، چار چاند اور طاؤس فقط رنگ شامل ہیں۔
'گوانڈھنے' (مطلب پڑوسن) نامی یہ پنجابی گانا دو تین مرتبہ سننے کے بعد نیلم احمد بشیر کو فون کیا اور ان سے پوچھا کہ بھئی اس گانے کے پیچھے کیا کہانی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ 'ایک دن جب ہم لوگ صبح اٹھے تو ہمیں پتہ لگا کہ وہ ابھی نندن والا واقعہ ہو گیا ہے۔ پاک بھارت بارڈر پہ شدید ٹینشن ہے، جنگ کے خطرے چل رہے ہیں، حالات ایک دم بالکل آخری موڑ پہ جا کر کھڑے ہو گئے ہیں جہاں سے ایک قدم بھی آگے بڑھتا ہے تو نری تباہی ہے۔ میں اس ڈپریشن میں بیٹھی تھی کہ میرے کچھ نوجوان دوست آئے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اس موضوع پر کچھ لکھ کر دیجیے۔ تو میں جو پہلے ہی اس فکر میں تھی، میں نے یہ لکھ کر انہیں تھما دیا۔ وہ اسے لے کر چلے گئے۔ بعد میں جب انہوں نے اسے مجھ سے ریکارڈ کروایا تو میں نے اپنی آواز میں ریکارڈ کیا ہوا وہ سب کچھ آگے بشری(انصاری) کو بھیج دیا۔ بہنیں میری جتنی ٹیلنٹڈ ہیں وہ آپ کو معلوم ہے۔ بشری نے وہ اسما کو دکھایا اور دونوں نے مجھ سے کہا کہ یہ تو ہم خود گائیں گے اور اس کی ویڈیو بھی بنوائیں گے۔ میں نے ان سے کہا کہ اسے ریپ میوزک پہ ریکارڈ کرنا، اس کے علاوہ یہ تال پر ٹھیک سے نہیں بیٹھے گا۔ انہوں نے مان لیا۔ گانا ریکارڈ ہوا، سوشل میڈیا پہ دیا اور اس کے بعد سے اب تک اتنا مشہور ہو چکا ہے کہ جس کا بھی فون آتا ہے وہ اسی حوالے سے بات کرتا ہے۔ بشری اور اسما بھی کہہ رہے تھے کہ اب تم ہمیں اپنی مزید چیزیں دو، ہم انہیں بھی پرفارم کریں گے۔'
یہ گانا بہت سی افسوس ناک حقیقتوں کے گرد گھومتا ہے جیسے جنگ عام آدمی کا مسئلہ نہیں ہے۔ عام آدمی جنگ سے ڈرتا ہے۔ وہ تباہی سے خوف زدہ ہوتا ہے۔ اسے اپنے پڑٖوسیوں سے امن کے ساتھ رہنا پسند ہے۔ اس کے خیال میں یہ سارے کھٹ راگ اہل سیاست اور ہئیت مقتدرہ کے پھیلائے ہوئے ہیں۔ جب کوئی ایسی خبر اچھلتی ہے تو پھر ٹی وی والے بھی اسے بیچنے لگ جاتے ہیں۔ اصل میں تو دونوں طرف رنگ، ذائقے، موسم، کپڑے، دل سبھی کچھ ایک جیسے ہیں اور محبت کرنا چاہتے ہیں۔ گانے میں بشری انصاری اور اسما عباس اس بات پر تبادلہ خیال کرتی نظر آتی ہیں کہ جوبھی سالن پکایا ہے آؤ ہم دونوں دیوار پہ چڑھ کر ایک دوسرے سے شئیر کر لیں۔ سرحد کے دونوں طرف امن کی بات کرتے اس خوش گوار گانے میں ایک مکالمہ ایسا بھی ہے جو یہ بتاتا ہے کہ ہمارا سورج، چاند، ستارے، زمین سبھی کچھ ایک ہیں تو ہم خود ایک ہو کر امن شانتی کے ساتھ کیوں نہیں رہتے۔
'سنا ہے ایٹم بم پھٹے گا تو چڑیاں اور کوے بھی مر جائیں گے؟ ہم سب انسان بھی جہاں ہوں گے وہیں مر جائیں گے؟'
اس مصرعے کے بعد دونوں خواتین بموں کو بھاڑ میں جھونکنے کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے مشترکہ دیوار پہ دیا جلانے کی بات کرتی ہیں۔ دیوار پہ لگے شیشے سے زخمی ہو جانے کے اندیشے پر فائنل یہ ہوتا ہے کہ چلو دوپٹہ بدل بہنیں بن جائیں۔ بالاخر دونوں دیوار کے اوپر سے اچھال کر ایک دوسرے سے دوپٹے بدل لیتی ہیں اور بے فکری سے ناچنے گانے لگتی ہیں۔
نیلم احمد بشیر نے یہ بھی کہا کہ بھئی اس رپورٹ میں یہ ضرور لکھیے گا کہ جنگ وغیرہ کے ہم سخت خلاف ہیں اور یہ بات ریکارڈ پر لائی جانی ضروری ہے۔ حکومتوں کو چاہئیے کہ امن امان کی بات کریں نہ کہ ہر وقت ایک دوسرے کی نسلوں کو آگ میں جھونکنے کی فکر کرتے رہیں۔
آئیے گانا سنیں؛