’مجھے فخر ہے کہ میرے بیٹے نے اپنے ملک کی خاطر اپنی جان دی ہے، میرا یہ بیٹا بھی فوج میں ہے اور میرے 50 بیٹے بھی ہوں تو انہیں بھی میں پاکستان کی فوج میں بھیجوں گی۔۔۔‘
یہ الفاظ اس ماں کے ہیں جس نے چند دن قبل اپنے جوان سپوت کو پاکستان کی سالمیت پر قربان کر دیا۔ لیفٹینینٹ ناصر خالد کی والدہ صرف ایک فوجی افسر کی والدہ ہی نہیں ہیں بلکہ ایک پولیس افسر کی بیوہ بھی ہیں۔ آفرین ہے اس ماں پر۔ غم میں نڈھال کھڑی ہو کر بھی یہ ماں اس ریاست سے یا قوم سے شکوہ نہیں کر رہی۔
یہ تحریر آپ مصنفہ کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں
محض 23 سالہ لیفٹیننٹ ناصر خالد کی شمالی وزیرستاں میں ملک کے کام آئے۔ ناصر کی ماں کے پاس ایک ہی چیز بچی ہے اور وہ ہے ان کا فخر۔ اس ماں نے اس دھرتی کو اپنا خون دیا ہے۔ اس ماں نے اپنے بیٹے کو ڈیوٹی پر بھیجا تو وردی میں تھا لیکن بیٹے کو وصول پرچم میں لپٹا ہوا کیا۔ کتنا حوصلہ چاہیے ہوتا ہے اس کے لیے؟
اپنی اولاد کو پال کر اس دن کے لیے بڑا کیا کہ جب وہ فوجی بنے تو ملک کی حفاظت کرے۔ اس ماں میں بیٹے کو قربان کرنے کے بعد بھی اپنے دیگر بیٹے پاکستان پر قربان کرنے کا حوصلہ اور ہمت موجود ہے۔ کیا وطن پر قربان ہونے والوں کی مائیں بھی فوجی ہوتی ہیں؟ ان ماؤں کے دل کتنے سخت ہوتے ہیں؟ یا ان کو اللہ اس بڑی قربانی کا حوصلہ خاص طور پر پہلے ہی دے کر دنیا میں بھیجتے ہیں؟
جب یہ عزم اور حوصلے والی ماں، جس نے اپنے بڑھاپے کا سہارا وطن پر قربان کر دیا اور اف تک نہ کی، سنتی ہے ’یہ جو دہشت گردی ہے اس کے پیچھے وردی ہے‘ تو زرا تصور کریں کے اس کے ذہن میں کیا خیال آتا ہوگا؟ کیا محسوس ہوتا ہوگا اسے کہ جس دیس پر اپنا بیٹا نچھاور کر دیا اس دیس کے لوگ میری قربانی کا مذاق اڑا رہے ہیں؟
جب سوشل میڈیا پر یہ ماں یہ ٹرینڈ چلتا ہوا دیکھےگی تو کیا یہ نہیں سوچے گی کہ یہ کون لوگ ہیں جو میرے بیٹے کی قربانی کا بھی احترام نہیں کرتے؟ جو لوگ یہ ٹرینڈز چلاتے ہیں، جو لوگ درجنوں اس قسم کے نعرے بناتے ہیں، اپنے ریاستی اداروں کی بدنامی اور بے عزتی کرنے لیے، ان کا تمسخر اڑانے کے لیے وہ درحقیقت ناصر کی ماں سے اس کا فخر اور اس کا وقار چھینتے ہیں۔
ناصر کی ماں نے تو اپنا سب کچھ قربان کر دیا ہے۔ اس کے پاس تو اب صرف فخریہ آنسو بچے ہیں۔ اس کے پاس وہ خودداری بچی ہے جس کے بل پر وہ یہ کہہ سکتی ہے کہ جتنی میرے شوہر اور بیٹے نے وطن سے محبت کی اور اپنی جانوں کے نذرانے سے یہ ثابت کیا، میں نے بھی ان کو قربان کر کے وطن سے محبت کا اتنا ہی بڑا ثبوت دیا۔ یہی خودداری باقی بچی ہے ان کے پاس۔ وہ یہ سمجھتی ہے کہ اپنا بیٹا قوم کو دے کر اس نے قوم کو بچایا ہے اور وطن سے وفا کی ہے۔
ایسے نعرے لگانے والوں کا مقصد یہ ہے کہ اس قوم میں نااتفاقی، ناچاکی پیدا کی جائے، اس ملک میں بسنے والی قوموں کو آپس میں لڑوایا جائے، بدگمان کیا جائے۔ پٹھان پنجابی، شیعہ سنی فسادات ہوں۔ یہ نعرے ویسے ہی بیٹھے بٹھائے نہیں بن جاتے ان نعروں کے پیچھے ایک بیانیہ ہے اور ہمیں اس بیانیے کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
ناصر جیسے فوجیوں نے وردی ضرور پہنی ہوتی ہے لیکن ان کے والدین نے، بھائی بہنوں نے، بیوی بچوں نے تو وردی نہیں پہنی ہوتی، نہ ہی وہ سب فوجی ہوتے ہیں۔ وہ تمام سویلینز ہوتے ہیں۔ وہ ہم ہی میں سے ہیں جو وردی پہن لیتے ہیں اور وہ بھی ہم میں سے ہیں جو ان نوجوانوں کو وردی پہنا کر فوج میں بھیجتے ہیں۔ یہ تمام لوگ کہیں باہر سے نہیں آئے۔ یہ ہم میں سے ہی ہیں۔
9/11 کے بعد امریکہ کی جو جنگ تھی طالبان اور القاعدہ کے خلاف افغانستان اس کا مرکز بنا۔ پاکستان چونکہ جغرافیائی طور پر افغانستان سے جڑا ہوا ہے تو ایک بار پھر تقریبا پندرہ سے بیس لاکھ لوگوں نے نقل مکانی کر کے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں اور خیبر پختونخوا میں پناہ لی۔ اس سے پہلے بھی 1979 کا جو سوویت حملہ تھا اس میں تین سے ساڑھے تین ملین افغان پناہ گزین پاکستان آئے تھے۔ ان میں ایک بڑی تعداد یہیں رہ گئی۔
یہاں پر یہ سمجھنے کی بات ہے کہ اس سے خیبر پختونخوا کا صوبہ اور قبائلی علاقے، وہاں کی اقدار، وہاں کا مزاج، معاشرہ کس طرح متاثر ہوا اور کیسے افغانستان کے اندر کی صورت حال نے پاکستان کے سرحدی علاقوں کو عدم استحکام میں مبتلا کرد یا اور ہمارے ان علاقوں میں ایک خانہ جنگی کی سی کیفیت پیدا ہوئی۔
شروع میں یہاں کے قبائلیوں میں مشرف حکومت کے خلاف ایک مزاحمت پائی جاتی تھی۔ پاکستان کا امریکہ کا ساتھ دینے پر لیکن بین الاقوامی صورت حال کچھ اس قسم کی تھی کہ ہمارے پاس امریکہ کا ساتھ دینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ اس مزاحمت کے نتیجے میں خانہ جنگی شروع ہوئی۔ لیکن بات وہیں ختم نہیں ہوئی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستان کے پرانے دشمن جو اس خطے میں موجود ہیں یعنی بھارت اس کی ایجنسیوں نے 9/11 کے بعد اس کا فائدہ اٹھایا اور پاکستان کے اندر جو نسلی فالٹ لائنز تھیں، جو سیاسی مسائل حل نہیں ہوئے تھے unsettled تھے ان کو بھڑکایا، ان کے ساتھ کھیلا۔ جس کے نتیجے میں فاٹا، سوات، بلوچستان، کراچی، پشاور وغیرہ میں ہم نے شورش دیکھی۔
پورا پاکستان 9/11کے بعد دس سے بارہ برس شدید عدم استحکام اور ہیجانی کیفیت میں رہا۔ جہاں پاکستان میں لسانیت اور قومیت کی بنیاد پر تقسیم کو ابھارا گیا وہیں پاکستان میں فرقہ واریت کو بھی طول دیا گیا۔ مختلف مسلکوں کو آپس میں لڑوایا گیا۔
جو لوگ آج یہ نعرے لگاتے ہیں انہوں نے اس وقت یہ باتیں کیں کہ پاکستان اندر سے تباہ ہو رہا ہے۔ اور یہ بیانیہ پاکستان کے بارے میں پوری دنیا میں پھیلایا گیا۔ یہ وہ جنگ تھی جسے لڑنے کے لیے پاکستان کے قومی سلامتی کے اداروں، پیرا ملٹری اور انٹیلیجنس نے محاز کا آغاز کیا۔ پاکستان کی سیاسی جماعتوں نے اور میڈیا نے بھی ان کا ساتھ دیا۔
اس جنگ میں پاکستان کے اب تک تقریبا ایک لاکھ سویلین، فوجی، پولیس اور پیراملٹری کے لوگ یا تو قربان ہوئے ہیں یا شدید زخمی ہوئے ہیں۔ اس ناسور سے لڑتے ہوئے تقریبا 123ارب ڈالر کا مالی نقصان بھی برداشت کرنا پڑا۔
16 دسمبر کے بعد اس قوم میں اپنی افواج کے ساتھ مل کر اس جنگ کے خلاف لڑنے کا ایک نیا ولولہ پیدا ہوا۔ کراچی، جہاں تین تین دن تک لاشیں پڑی رہتی تھیں، تین دن میں سو سے زیادہ لوگ ہلاک ہو جاتے تھے، آج وہاں ہم اتنے مطمئن ہو چکے ہیں کہ ہم اس شہر کے دیگر مسائل جیسے صفائی اور گٹر نالوں کی بات کر رہے ہیں۔ اس میں نکاسی آب کا نظام کیسے بہتر بنانا ہے، نوکریاں کیسے پیدا کرنی ہیں، ان باتوں پر دھیان دینے کے قابل ہوئے ہیں۔
یہ جو نعرے لگتے ہیں یہ اسی 5th gen warfare کا حصہ ہیں جو پاکستان کے روایتی دشمن بھارت نے استعمال کیے، اپنے اثاثوں کو پاکستان میں خرچ کیا، پاکستان کے اندر ایک بیانیے کی جنگ جاری کی جس کا مقصد تھا کہ قوم کو تقسیم کیا جائے، عدم استحکام اور ناامیدی کی فضا پھیلائی جائے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں جگہ جگہ مسائل بھی ہیں، یہاں سب اچھا نہیں ہے لیکن وہ مسائل ہر جگہ ہیں اور ہر ملک میں ہیں۔ وہ ریاستی اداروں میں بھی ہیں اور وہ میڈیا میں بھی ہیں۔ لیکن جب ہم پاکستان کی پچھلے 12 برس کی جدوجہد دیکھتے ہیں اور اس کے خلاف کامیابی دیکھتے ہیں اور پھرکووڈ19 میں اپنے اتحاد کا نتیجہ اور کامیابی دیکھتے ہیں تو اس سے ہمیں آج یوم دفاع پر یہی پیغام ملتا ہے کہ اگر ہم متحد ہوں گے، ایک دوسرے پر اعتماد کریں گے، تو ہم ہر قسم کی مشکل پر قابو پا لیں گے۔
یہی وجہ ہے کہ جب میں ناصر کی ماں کا عزم دیکھتی ہوں ہمت دیکھتی ہوں تو مجھے بھی ایک امید اور اعتماد ملتا ہے کہ ایسی کوئی مشکل نہیں جس کا پاکستانی قوم مقابلہ نہ کر سکے۔ پاکستانی قوم ہر مسئلے کا حل تلاش کر سکتی ہے اور ہر قسم کی سازش کو ناکام بنا سکتی ہے۔
پاکستان پائندہ باد۔