ریاست پاکستان کی عمارت کے ستون ہیں عدلیہ، مقننہ، انتظامیہ اور میڈیا۔ یوں سمجھ لیں کہ ان ستونوں کو جس نے زمین پہ گاڑ رکھا ہے اور عمارت سے جوڑ رکھا ہے وہ سیمنٹ اسی کمپنی کا ہے۔
میرے سامنے یونیورسٹی پروفیسر بیٹھے تھے، رشتہ قریبی ہے اس لیے عمر کے احترام کی وجہ سے کہہ نہیں پائی کہ عمو جان یہ کیسی عامیانہ بات کر دی۔ محفل خالصتاً گھریلو تھی ایسے میں ٹوئٹر پر نظر پڑی جہاں سہیل وڑائچ صاحب کی کتاب ’یہ کمپنی نہیں چلے گی‘ کے سر ِورق پر جملہ بازی جاری تھی سو میں نے محفل کے آداب کو پرے کیا اور نجی گفتگو میں سیاسی سوال پوچھ بیٹھی۔
یہ تحریر آپ مصنفہ کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں
سیمنٹ والا جواب غیرمتوقع تھا۔ میں نے سوچا کہ بہتر ہے بحث یہیں ختم کر دی جائے۔ میری خاموشی پر گویا ہوئے ’کیوں جواب برا لگا؟‘ میں نے کہا برا تو نہیں لگا لیکن آپ نے بھی ٹوئٹر کے لب و لہجے میں بات کر دی۔
پروفیسر ہیں کیسے چپ رہتے، کہنے لگے ’لیکن حقیقت تو یہی ہے کہ یہ ملک کمپنی چلا رہی ہے۔ ہماری جمہوری حکومتیں کمپنی کی متعارف کردہ پراڈکٹ ہوتی ہیں۔ عوام وہ صارف ہیں جنہیں کمپنی اپنے نمائندوں کے ذریعے اس بات پر قائل کرتی ہے کہ بازار میں بڑی چور بازاری ہے فی الحال یہی سودا سب سے اچھا ہے، لے لو۔‘
پروفیسر صاحب اب چہک رہے تھے جیسے کسی بڑی تحقیق کا پہلا سرا ہاتھ لگ گیا ہو۔
میں ادب احترام کے مارے اثباتاً سر ہلا رہی تھی لیکن پروفیسر صاحب کی ایک کارٹون پہ عمیق و دقیق تحقیق مجھے سنجیدگی کے کسی معیار پر پوری اترتی محسوس نہیں ہوئی۔ میں نے یہ کہہ کر بحث سمیٹی کہ عمو جان! کمپنی پر آپ کا تخیلاتی تجزیہ درست نہیں، ریاست پاکستان کو کسی ایک کمپنی کی پیشکش قرار دینا بڑی عجلت میں کسی نتیجے تک پہنچنے کی کوشش لگتی ہے۔
اس ملک کو سیاست دانوں نے بنایا تھا، سیاست دان ہی چلا رہے ہیں۔ رہی بات ہماری لائق صد احترام افواج کی تو وہ ہماری سرحدوں کی محافظ ہیں۔
پروفیسر صاحب نے مسکراتے ہوئے میری بات ان سنی کر دی۔ ’تم بھی ٹوئٹر والوں کی طرح بغیر سمجھے برا مان رہی ہو۔ اچھا چلو اس پورے فلسفے کو دوبارہ دیکھتے ہیں ایک دوسری عینک سے۔ کمپنی ہے اس کے وجود سے تو کوئی انکاری نہیں، کمپنی ہے تو پھر مارکیٹ میں اس کے حصص یعنی شیئرز بھی ہوں گے، تو بس سادہ سی بات ہے جو پارٹی زیادہ حصص لے گی کمپنی اور وہ ایک طرف، شراکت سے جسے انکار سو وہ ایک طرف۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ہماری بحث کا محور و مرکز ایک کارٹون تھا اور پروفیسر صاحب کو دانائی کے پردے میں شرارت سوجھ رہی تھی۔ اب کی بار گہرے مشاہدے کا بگھار میں نے یہ کہتے ہوئے لگایا کہ گر قوت و حکمرانی کے تمام دعوے دار سب ایک ہی کمپنی میں شراکت دار ہیں، کچھ ملازم ہیں اور کچھ ملازمت کے خواہش مند، باری باری سب کی حصے داری ہے پھر اعتراض کیسا۔
’دیٹس اٹ۔‘ پروفیسر صاحب نے میری جھنجھلاہٹ کو بھانپتے ہوئے تھوڑی حوصلہ افزائی کی۔ کہنے لگے یہ کمپنی تو سدا سے یہی تھی اور یہیں تھی، ہے اور رہے گی، بس کمپنی کا باس بننے کے لیے چھوٹی موٹی اندرونی کھینچا تانی ہوتی رہتی ہے، شراکت دار بدلتے رہتے ہیں، ورنہ کمپنی تو ایک ہی ہے۔
پروفیسر صاحب جس کسی یونیورسٹی کو سبق پڑھائیں ان کے گھر کی وائس چانسلر تائی ہاشمی ہی ہیں۔ وہ شاید کمپنی کمپنی کی گردان سے بوجھل تھیں، میاں کو ابرو سے اشارہ کیا اور چند لمحوں میں پروفیسر صاحب ہمارے گھر کے دروازے پہ جانے کو تیار کھڑے تھے۔
جاتے جاتے کہہ گئے ’بیٹا کمپنی نے مشہوری کے پیسے دیئے ہیں، نہ مراعات۔ لیکن کہہ لینے دیجیے کہ کمپنی تو یہی چلے گی۔ کمپنی کے پاس چلنے کے لیے 70 سال سے زائد کا تجربہ اورشراکت داروں کی لمبی فہرست ہے۔ کیسے نہیں چلے گی۔ !‘
اگرچہ سہیل وڑائچ صاحب نے اعتراف کیا ہے کہ ان کی کتاب کے سرورق پر چپکے کارٹون کا مقصد ہلکے پھلکے انداز میں مزاح تھا، لیکن برا لگا تو وہ اب اس کارٹون کو ہٹانے اور لچک دکھانے پر راضی ہیں۔ ایسے ہی پروفیسر صاحب نے ہماری سیاست و حکومت کی سب سے بڑی حقیقت کو ایک ہلکی پھلکی بحث میں چھیڑا۔ دونوں صاحبان نے اس ’ہلکے پھلکے انداز ‘ میں سوچنے کو بڑا مواد دیا ہے۔
کمپنی ہے تو اس کے سیاسی و کاروباری رقیب بھی ہیں۔ رقیب چاہیں توغم و غصے کے اظہار سے بڑھ کر بھی کچھ کر سکتے ہیں، یہ کمپنی کی کامیابی کے نہ تھمنے والے سلسلے کو روک سکتے ہیں اس کے لیے انہیں اپنے مفادات کا کاروبار چھوڑ کر کرسی کی خاطر کمپنی کی جانب دیکھنا بند کرنا ہوگا۔
دھیان رہے، ملک کو کمپنی کی طرح چلانے کا ایک بڑا نقصان یہ ہے کہ کاروبار میں بس نفع نقصان معنی رکھتا ہے جبکہ جمہوریت میں نفع نقصان سے بڑھ کر اہم قومی حمیت اور جمعیت ہوتی ہے۔ اس ملک کے عوام کی خدمت ہوتی ہے۔ خیر یہ اچھے وقتوں کی باتیں ہیں یہ پھر کبھی کریں گے۔ فی الحال تو ہمیں کمپنی کی پالیسی پر ہی اکتفا کرنا ہوگا۔