گذشتہ ایک ہفتے میں اتنے موضوعات اور خبریں جمع ہوگئی ہیں کہ فیصلہ کرنا مشکل ہو گیا کہ ہفتہ وار کالم کے لیے کس بات پر گفتگو کی جائے۔
ٹِک ٹاک پر پابندی، اپوزیشن ٹاک پر پابندی، سوشل میڈیا پر مجوزہ پابندی، اظہارِ رائے پر پابندی، تنقید پر پابندی، اب تو اس قدر پابندیوں میں بہ امرِ مجبوری گھرے ہیں کہ بقول قمر جلالوی......
ضبط کرتا ہوں تو گھُٹتا ہے قفس میں مرا دم
آہ کرتا ہوں تو صیاد خفا ہوتا ہے
اپوزیشن کے جلسے، حکومت کے جوابی جلسے، 12 اکتوبر کی اکیسویں برسی، خوف ناک مہنگائی، خطرناک حد تک بڑھتی غربت، گھٹتی بڑھتی بے یقینی اور مایوسی....... کس موضوع پر بات کی جائے....... یا پھر پنڈی اسلام آباد کی بدلتی ہواؤں کا تذکرہ کیا جائے... لیکن چلیں نکتہ آغاز کے لیے کچھ اہم بیانات کو یہاں کاپی کر دیتے ہیں۔
ان ‘اہم’ بیانات میں کیا کچھ اور کتنے ‘اہم’ پیغامات پوشیدہ ہیں اس کا انحصار اور فیصلہ آپ کی بصیرت پر چھوڑے دیتے ہیں:
‘مجھے فوج کے ساتھ کوئی مسئلہ نہیں۔ ہر جگہ فوج حکومت کے ساتھ کھڑی ہے۔’
‘آئی ایس آئی کو پتہ ہے میں کیسی زندگی گزارتا ہوں۔’
‘آئی ایس آئی کو ان کی چوریوں کا پتہ ہے۔ آئی ایس آئی کو قابو کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو لڑائی ہوتی ہے۔’
‘جس دن این آر او ملا یہ پاکستان کی تباہی ہوگی۔’
ان بظاہر بے رَبط لیکن اندرون انتہائی معنی خیز پیغامات میں آنے والے دنوں کی کچھ جھلکیاں پنہاں ہیں۔ اب سے ٹھیک ایک دن کم ہفتے بعد اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کی حکومت مخالف تحریک کا باقاعدہ آغاز گوجرانوالہ سے ہو جائے گا۔ حکومت نے بہرحال اچھی سیاسی حکمتِ عملی سوچی ہے کہ لوہے کو لوہے سے کاٹا جائے۔
جلسوں کا جواب جلسوں سے دیا جائے۔ جلسے کرنے میں تو یوں بھی حکومتی جماعت کا کوئی ثانی نہیں اور آج سے ‘‘پَری ایمپٹیو’’ (preemptive) حکومتی سٹریٹجی کے ذریعے راولپنڈی، لیاقت باغ سے تحریک انصاف جن جلسوں کا آغاز کرنے جا رہی ہے، تو حکومتی اور انتظامی مشینری کو بھرپور معاون کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے توقع یہی ہے کہ پی ٹی آئی آج شام کا اچھا شو کر لے گی اور اپوزیشن کو دباؤ میں لانے کی حکمت عملی کو کامیابی سے آگے بڑھانے پر توجہ دے گی۔
لیکن اصل سیاسی کھیل کا آغاز تو گوجرانوالہ سے ہوگا۔ ن لیگ کا گڑھ ہونے کے ناطے امید تو یہی ہے کہ پی ڈی ایم اچھا مجمع جمع کر لے گی لیکن اہم بات یہ دیکھنی ہوگی کہ اپوزیشن جلسے میں صرف سیاسی کارکن شریک ہوتے ہیں یا عوام بھی شامل ہوتی ہے۔ اسی طرح کاروباری برادری کی حمایت اور شرکت کا عنصر بھی اپوزیشن تحریک کی کامیابی یا ناکامی کا ایک بیرومیٹر رہے گا۔
گوجرانوالہ جلسے اور پی ڈی ایم تحریک کی مضبوطی کا فیصلہ تو مریم نواز کی لاہور روانگی سے ہی طے پا جائے گا۔ مریم نواز کے قافلے میں کتنا مجمع کتنے عوام شریک ہوتے ہیں یہ بہت بڑا فیصلہ ساز لمحہ ہوگا اور یقینی طور پر اس کا تقابل ن لیگ کی گذشتہ حکومت کی اسلام آباد تا لاہور براستہ پنڈی ریلی سے کیا جائے گا، جس کا حجم اسلام آباد پنڈی میں ہی انتہائی مایوس کُن رہا تھا۔
16 اکتوبر کو گوجرانوالہ میں پی ٹی آئی نے بھی اپنی ریلی اور جلسہ رکھا ہوا ہے۔ 2014 میں تحریکِ انصاف کے نامی گرامی آزادی مارچ کو بھی گوجرانوالہ میں جس تصادم کا سامنا کرنا پڑا تھا، اب کی بار وہی خطرہ اپوزیشن جلسے کے لیے بھی برقرار ہے۔
دونوں اطراف کے کارکن موجودہ حالات میں جس قدر چارجڈ اور جذباتی ہیں، ذرا سی چنگاری بھی خدانخواستہ کوئی نہ کوئی آگ بھڑکا سکتی ہے۔ شر پسند عناصر بھی صورتحال کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور حکومت اور اپوزیشن کے درمیان کشیدہ صورتحال پیدا کر سکتے ہیں۔ وزیراعظم بھی بار بار یہی کہتے پائے جاتے ہیں کہ جلسوں کے دوران قانون توڑا تو اپوزیشن کو پکڑ کر جیل میں ڈال دیں گے۔
دو دن بعد 12 اکتوبر نانوے کی اکیسویں برسی ہے۔ برسی اس لیے کہ مارشل لا جمہوریت کی، پارلیمان کے مقتدر ہونے کی، عوامی حقِ حکمرانی کی، ترقی کی، بنیادی انسانی حقوق کی موت ہوتا ہے۔
ان 21 سالوں میں کتنی ہی حکومتیں آئیں اور گئیں، کتنے حکمران اور سیاست دان تبدیل ہوئے، کچھ پیدا ہوئے، کچھ کا جنمِ نو ہوا، کچھ رخصت ہوئے..... ان 21 سالوں میں نو سالہ مارشل لا دور رہا اور 12 سال (لولا لنگڑا بھَلا مَندا) جمہوری دور۔ 21 سال ایک طویل عمر ہوتی ہے۔ جس طِفل نے 1999 میں دنیا میں آنکھ کھولی ہوگی آج وہ 21 سال کا باشعور ووٹ کا حق رکھنے والا نوجوان ہوگا۔ 12 اکتوبر کی 21 سالہ برسی پر ہم سب کو سوچنا ہوگا کہ کیا ہم نے پاکستان کو اپنی نوجوان نسل کے لیے بہتر بنایا ہے یا اِسے مزید پیچھے دھکیل دیا ہے؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کیا پاکستان میں نوجوان کو واقعی جمہوریت اور اس کے بنیادی حقوق سے روشناس کرا دیا گیا ہے یا اُس کے شعور کو شعوری طور پر محروم رکھا گیا ہے؟ مارشل لا کے نو سالہ دور کے مقابلے میں جمہوری سیاسی جماعتوں کا 12 سالہ دور کیسا رہا ہے؟ کیا مارشل لا کی عِلتوں کو ختم کیا گیا ہے یا نظریہ ضرورت کے تحت آج بھی اور آج تک اُن باقیات کو سلامت رکھا گیا ہے؟ مارشل لا کی 21 ویں برسی پر ہم سب کو خاص طور پر سیاسی جماعتوں اور ریاستی اداروں کو اس ملک کی نوجوان نسل اور اِن کے مستقبل کے بارے میں اپنے آپ کو جواب دہ کرنا ہوگا۔
آخر میں بات ٹِک ٹاک پر پابندی کی۔ ہر پابندی کی طرح یہ بھی انتہائی مضحکہ خیز اور بھونڈی ہے۔ ٹِک ٹاک خالصتاً نوجوان نسل کی تفریح، ذریعہ آمدن اور خود شناسی و شہرت کا عوامی پلیٹ فارم ہے۔ پاکستان میں پہلے ہی ٹیکنالوجی دوستی کا فقدان ہے۔ نہ آگہی ہے، نہ مارکیٹ، اُس پر اِس قسم کی بھونڈی بے سروپا پابندیاں۔ نوجوانوں کے لیے تفریح کے مواقع پہلے ہی کمیاب مزید برآں ہر بات ہر چیز پر پابندی لگا کر آخر آپ نوجوان نسل کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں۔
آپ اپنی نوجوان نسل کی تربیت گھٹن زدہ پابندیوں سے بھرپور ماحول میں کر کے ہرگز وسیع اور زرخیز دِماغوں کی وہ فصل تیار نہیں کر سکتے جو کسی بھی معاشرے کی ترقی اور آگے بڑھنے کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ کالم طویل ہوگیا سو ٹِک ٹاک پر پابندی، نوجوان نسل اور فحاشی آخر ہوتی کیا ہے اس پر آئندہ کالم میں گفتگو رہے گی۔