پی ڈی ایم پر نگاہ ڈالیں توسوال پیدا ہوتا ہے یہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ ہے یا یہ پاکستان ڈیموکریٹک مونارکس (monarchs) ہیں جو جمہوریت اور آئین کا نام لے کر اپنی خاندانی بادشاہتوں کو رو رہے ہیں؟
کیا جمہوریت کے یہ بھاری بھرکم رہنما بتا سکتے ہیں ان کی اپنی جماعتوں میں کتنے کلوگرام جمہوریت پائی جاتی ہے؟
یہ تحریر خود کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے نیچے کلک کیجیے
جناب اویس نورانی، جمہوری قافلے کے سالار ہیں۔ ان کی مبلغ سیاسی حیثیت اس کے سوا کیا ہے کہ وہ مولانا شاہ احمد نورانی کے صاحبزادے ہیں۔ جمعیت علمائے پاکستان کی قیادت انہیں میراث میں آئی ہے۔ پاکستان کے علما کی جمعیت میں شاید ان کے سوا کوئی اور بزرگ ایسا نہ تھا جسے قیادت کے قابل سمجھا جا سکتا۔ معلوم نہیں ان کی جماعت میں سربراہی کے منصب کے حصول کا جمہوری طریقہ کار کیا ہے اور اس پر کتنا عمل کیا جاتا ہے۔
اگر وہ الیکشن کمیشن کو اپنی جماعت کی قیادت تک پہنچنے کا جمہوری طریقہ کار بھجوا دیں تو الیکشن کمیشن کو یقینا رہنمائی حاصل ہو گی اور عام انتخابات میں بھی اس کے کام آئے گی۔
پشتون خواہ ملی عوامی پارٹی اصل میں نیشنل عوامی پارٹی کی نئی شکل ہے۔ نیشنل عوامی پارٹی کے سربراہ جناب عبد الصمد اچکزئی تھے، جو محمود اچکزئی صاحب کے والد تھے۔ محمود خان اچکزئی کو بھی گویا یہ قیادت میراث میں آئی ہے۔ اس جماعت میں جمہوری قدروں کا عالم یہ ہے کہ مسلم لیگ ن سے اتحاد کے نتیجے میں جب گورنر بلوچستان کا منصب اس جماعت کو دیا گیا تو قائد محترم کو پوری جماعت میں سے گورنر بنانے کے لیے کوئی موزوں آدمی نہ مل سکا اور بالآخر انہیں اپنے ہی بھائی محمد خان اچکزئی کو گورنر بلوچستان بنانا پڑا۔
قائد جمہوریت کے ایک تیسرے بھائی جناب حامد خان اچکزئی ہیں، وہ بلوچستان اسمبلی کے بھی رکن رہے اور قومی اسمبلی کے بھی۔ تین بھائی ہیں اور تینوں چشمہ اقتدار سے فیض یاب ہوتے رہے ہیں۔ ان کے بھتیجے عبد المجید خان اچکزئی بھی رکن صوبائی اسمبلی رہ چکے۔ یہ وہی صاحب ہیں جن کی گاڑی تلے ایک ٹریفک کانسٹیبل کچلا گیا۔ ایک چھوٹی سی جماعت اقتدار کو یوں گھرانے میں تقسیم کر لے تو ہمیں کیا اعتراض ہو سکتا ہے؟ ہمارا سوال صرف اتنا ہے عہدوں کی یہ تقسیم کار جن عظیم اور آفاقی جمہوری اصولوں کے تحت ہوئی ہے ان کی بابت پوری قوم کی رہنمائی فرما دی جائے۔
مولانا فضل الرحمٰن بھی جمہوریت کی سربلندی کے لیے میدان عمل میں ہیں۔ ان کی جماعت میں جمہوریت کی سربلندی کا یہ عالم ہے کہ اسلام کے علما کی جمعیت ہے لیکن ’ف‘ ہو چکی ہے (جے یو آئی ف)۔ یہ نسبت کسی نظریے یا اصول کی نہیں شخصی وابستگی کی ہے جسے موروثیت کا آزار کہا جا سکتا ہے۔ مولانا کو یہ قیادت میراث میں آئی ہے اور دور دور تک اس کا کوئی امکان نہیں کہ یہ میراث مولانا شیرانی یا کسی اور صاحب علم کو منتقل ہو جائے۔ قیادت کے لیے اسد محمود صاحب سے موزوں کوئی ہو ہی نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ قائد محترم کے فرزند ہیں۔
یہ سوال تو اب مولانا شیرانی ہی سے پوچھا جا سکتا ہے کہ عام انتخابات میں دھاندلی زیادہ ہوتی ہے یا جماعتی انتخابات میں؟ اختلاف رائے کا یہ عالم ہے کہ حاٖفظ حسین احمد جیسا آدمی جب نگاہ ناز سے گر جاتا ہے تو نیک چلنی کا یقین دلاتے دلاتے تھک جاتا ہے۔ اور مفتی کفایت اللہ اپنی وفاداری ثابت کرنے کے لیے ٹاک شو میں مطالبہ کر رہے ہوتے ہیں کہ میرے قائد کا نام باوضو ہو کر لو۔
کے پی میں حزب اختلاف کے لیے جے یو آئی کو مولانا کے بھائی لطف الرحمٰن صاحب کے علاوہ کوئی آدمی نہیں ملتا اور جے یو آئی کو شراکت اقتدار کا موقع ملتا ہے تو دوسرے بھائی عطاء الرحمن صاحب وفاقی وزیر بن جاتے ہیں۔ وہ سینیٹ کے رکن بھی ہیں اور جے یو آئی کے پی کے نائب امیر کی ذمہ داری بھی انہی کے پاس ہے۔
اس سارے موروثی بندوبست پر ہم طالب علموں کو کوئی اعتراض نہیں، ہماری ہتھیلی پر تو صرف یہ سوال رکھا ہے کہ یہ موروثیت بھی کیا سٹیبلشمنٹ کی سازش ہے یا اس سازش میں یہود ملوث ہیں اور ان کی پشت پر ہنود بھی کھڑے ہیں؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اے این پی بھی عملاً پرائیویٹ لمیٹڈ بن چکی ہے۔ باچا خان مرحوم سے ولی خان اور ولی خان مرحوم سے جناب اسفند یار ولی تک، سارا بندو بست موروثی ہے۔ جماعت میں کتنے ہی صاحب دانش کیوں نہ ہوں قیادت گھر میں ہی رہنی ہے اور جناب ایمل ولی خان کو میراث میں آنی ہے۔ وزارت اعلیٰ کے لیے بھی پوری جماعت میں ماموں جان کو اپنے بھانجے کے علاوہ کوئی موزوں امیدوارہ نہیں ملتا اور امیرحیدر خان ہوتی صاحب کو مجبوری کے عالم میں جمہوریت کی خدمت کرنا پڑ جاتی ہے۔
مسلم لیگ ن کو دیکھ لیجیے۔ ن، یعنی نام ہی کافی ہے کہ اس گروہ کو کسی نظریے سے نہیں ایک شخص سے نسبت ہے۔ جید بزرگ اس جماعت میں موجود ہیں لیکن شاہی خاندان طے کر چکا ہے کہ وزارت عظمیٰ بڑے بھائی جان کی اور وزارت اعلیٰ چھوٹے بھائی جان کی۔ بڑے بھائی کے بعد ان کی صاحبزادی قیادت کریں گی اور بزرگان جمہوریت ہاتھ باند کر کورنش بجا لائیں گے۔ کچھ حیرت نہیں ہو گی اگر کل کو جناب جنید صفدر بھی قوم کی رہنمائی کے لیے قیادت سنبھالتے دکھائی دیں اور بزرگ لیگی رہنما سر دھن رہے ہوں کہ یہ مقام اللہ اکبر لوٹنے کی جائے ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی پر تو اب کچھ کہنا تکلف ہے۔ ایک ایسی وصیت پر یہاں قیادت بلاول صاحب کو میراث میں آئی ہے جس کی صحت ہی ایک سوال ہے۔ لیکن وصیت کا اصلی یا جعلی ہونا اہم نہیں، اہم یہ ہے کیا ایک جمہوری سیاسی قوت کو زیب دیتا ہے اس کی قیادت وصیت میں منتقل ہو جائے؟ یہ کیسا بندو بست ہے کہ قائم علی شاہ جیسے بزرگ کو بھی بلاول کی قیادت میں چلنا ہے جو اس وقت بھی بزرگ تھے جب بلاول پنگھوڑے میں تھے۔
یہ وہ پس منظر ہے جو یہ سوال پیدا کرتا ہے کہ جمہوری اکابرین کی یہ جدوجہد جمہوریت اور آئین کے لیے ہے یا یہ ڈیموکریٹک مونارکس (جمہوری بادشاہ) ہیں جو اپنی اپنی بادشاہتوں کے تحفظ کے لیے میدان میں اترے ہیں؟
آخر کیا چیز ہے جس نے ان کے ہاتھ باندھ رکھے ہیں اور یہ اپنی جماعتوں میں جمہوری کلچر رائج نہیں کر پائے۔ قیادت یہاں میراث میں آتی ہے اور تنظیمی عہدوں پر انتخاب نہیں ہوتا، تعیناتی ہوتی ہے۔ کیا یہ بھی سٹیبلشمنٹ کی سازش ہے؟