پاکستان کی تمام مقتدر قوتوں کے سامنے سوالات بڑے سادے سے ہیں؟ کیا پاکستان کو ایسے ہی چلنا ہے جیسے چلایا جا رہا ہے؟
کیا موجودہ معاشی سمت ملک کے دفاع اور لوگوں کی فلاح کی لٹیا ڈبو رہی ہے؟ کیا سیاسی اور انتظامی فساد جیسا کہ سندھ آئی جی کے یرغمال بنانے سے سامنے آیا پاکستان کو استحکام مہیا کرے گا؟ یا یہ واقعہ محض ایک مثال ہے اس بنیادی خرابی کی جو 2018 کے انتخابات کے بعد اس ملک میں گہری جڑیں پکڑ چکی ہے؟ اور یہ کہ کیا اس ملک کی اجتماعی طور پر اکثریت رکھنے والی جماعتوں کو دیوار میں گاڑھ کر پاکستان کو سنبھالا جا سکتا ہے یا نہیں؟
اگر اعداد و شمار سیاسی تعصب سے علیحدہ کر دیے جائیں تو ان میں سے کوئی بھی کسی ایک سوال کا جواب مثبت انداز سے نہیں بنا پاتے۔ تمام تر خوشخبریوں کے باوجود معیشت ایک ایسے جمود کا شکار ہو چکی ہے جس میں نوکریاں، چھوٹے کاروبار اور اچھی زندگی گزارنے کے مواقع بدستور سکڑتے جائیں گے۔
ریڈیو پاکستان کے 500 سے زائد ملازمین چونکہ پارلیمان کے قریب ہی نوکریاں کیا کرتے تھے لہذا احتجاج کے اس پلیٹ فارم پر اپنی آواز بلند کر سکے۔ پاکستان کی وسیع و عریض سرزمین پر بسنے والے لاکھوں بےروز گار اس سہولت سے محروم ہونے کے باوجود اسی کوفت اور ذہنی اذیت سے گزر رہے ہیں جن کا سامنا فارغ کیے جانے والے ملازمین کو ہے۔
ہر سال لاکھوں نوجوان ملازمت کرنے کی عمر کو پہنچیں گے اور پھر بگڑتی ہوئی معاشی کیفیت کے سامنے غصے اور احتجاج کو اپنا لیں گے۔ ایسا ہوا تو ان کو کون روکے گا؟ شہری علاقوں میں مشرق وسطی سے فارغ کیے ہوئے ہزاروں کارکنان کی آمد ہے۔ چند ماہ اپنی بچت پر گزارا کریں گے پھر کہاں جائیں گے؟ اس ملک کے گلی اور محلے بے روزگاروں سے بھرنے والے ہیں۔
کتنے ناکے لگائیں گے؟ کتنوں پر ڈنڈے برسائیں گے؟ پی ڈی ایم نے تو شاید کبھی بھی اسلام آباد کا گھیراو نہیں کرنا لیکن لیڈی ہیلتھ ورکرز، اساتذہ، کلرک، ڈاکٹرز اور ٹرانسپورٹرز شہر اسلام آباد کے بعض حصوں کو کئی مرتبہ بند کر چکے ہیں۔ ان کی باتیں سنیں تو اپوزیشن کی تنقید کانوں کو بھلی محسوس ہو گی۔ اس بحران کی ذمہ دار حکومت ہے۔
اب ماضی کے قصے کسی کو متاثر نہیں کرتے۔ سندھ میں پولیس کے اجتماعی احتجاج نے ایک نئی مثال قائم کی ہے۔ چھٹیوں کی درخواستیں زبان سے ادا کیے اور لکھے ہوئے سخت ترین الفاظ پر بھاری تھیں۔ ایک صوبے کی پولیس کمانڈ درخواستوں کے ذریعے آپ کو بتا رہی تھی کہ دھونس، دھاندلی، ڈنڈا، بھیڑ بکریوں پر استعمال کیا جاتا ہے۔ انسان کی آنکھ پر پٹی باندھ کر بھی ایک خاص حد سے آگے نہیں دھکیلا جا سکتا۔
کل کو اوپر سے آنے والے آرڈرز کو کلرک، آفس بوائے، دربان، گریڈ 11 سے 17 کے حکومتی اہلکار، ٹریفک پولیس سب جوتے کی نوک پر رکھیں گے۔ کتنوں کے خلاف ایف آئی آر درج کرائیں گے؟ کتنوں کو اندر کریں گے؟ اس وقت ویسے بھی انتظامی ڈھانچہ فالج زدہ ہے۔ پنجاب کے کسی دفتر میں چلے جائیں کوئی افسر کسی فائل پر دستخط نہیں کرتا اگر اس کو اس امر کا ادراک ہو کہ کل کو اس کے فیصلے اس کے گلے پڑ سکتے ہیں۔
سینیئر ترین بیوروکریٹس کے بچوں اور بزرگوں کو الزامات کے جنگل میں ہاتھ پاؤں باندھ کر پھینکوانے کے عمل کو ہم احتساب کہہ کر نیک نام نہیں کر سکتے۔ کون سی ملکی خدمت اور نوکری ایسی ہو گی جس کے اختتام پر ایسی ذلت قابل قبول ہو۔ کوئی گھاٹے کے سودے کرنے کو تیار نہیں۔ کوئی نوکری سے اپنی تباہی اور ذلت کا اہتمام نہیں کرنا چاہتا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جاوید اقبال جو مرضی بولتے رہیں نیب اس ملک کے گلے میں ہڈی کی طرح پھنسا دیا گیا ہے۔ بدعنوانی کا پیسہ نکالنے کے نام پر ریاستی اداروں میں کام کرنے والوں کے گلے گھونٹ دیے گئے ہیں۔
سیاسی طور پر گولے برسانے اور روزانہ پریس کانفرس میں گھسے پٹے جملے دوہرانے سے اب کچھ تبدیل نہیں ہو رہا۔ پہلے شہزاد اکبر ہر دوسرے روز پریس کانفرنس کر کے ملک سے باہر گئی ہوئی دولت کو واپس لانے کی خالی ہنڈیا پکاتے تھے۔ اب ان کی جگہ شبلی فرار نے لے لی ہے۔ چوں کہ پہلی مرتبہ منسٹری کا شوق پورا ہو رہا ہے لہذا یہ سوچے سمجھے بنا کہ ان کے اپنے الفاط کیسے ان کا منہ چڑاتے ہیں وہ روزانہ چھت سے کھڑے ہو کر کوڑا کرکٹ اس امید پر انڈیل دیتے ہیں کہ اپوزیشن گندی ہو گی۔
وہ شاید یہ نہیں جانتے کہ یہ سب کاٹھ کباڑ حکومت کے دروازے کے سامنے اتنا بڑا انبار لگا چکا ہے کہ اب دروازہ کھول کر باہر کا راستہ بھی مسدود ہو گیا ہے۔ سیاسی طور پر متنوع ملک میں لاٹھی، گولی اور گالی اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہوتی ہے۔ مگر وزیر اعظم عمران خان یہ ماننے کو تیار ہی نہیں ہیں۔
جن کے خلاف وہ اپنی قبر سے لڑنے کی دھمکی دے رہے ہیں ان کے سربراہان کو فوج کا چیف فون کر کے یقین دہانیاں کروا رہا ہے کہ ان کا سندھ کے واقعے پر انکوائری کا مطالبہ جائز ہے۔ آرمی سربراہ جنرل قمر باجوہ انکوائری کے معاملے پر تسلی چیف منسٹر مراد علی شاہ کو بھی دے سکتے تھے۔ لیکن انہوں نے ایک سیاسی جماعت کے سربراہ کو اس کی پریس کانفرنس کے فورا بعد فون کر کے اپنی طرف سے یہ واضح کر دیا کہ اہم معاملات پر وہ ان جماعتوں کی قیادت کے ساتھ رابطہ کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے۔
وزیر اعظم اس سے پہلے ہونے والی آرمی چیف اور سیاست دانوں کی ملاقات کو بھی ’بڑی غلطی‘ قرار دیتے ہیں۔ ادھر وہ ’قوم کے مجرموں‘ اور ’اسرائیل و انڈیا‘ کے ایجنٹوں کو گردن سے پکڑ کر گھسیٹنے کی بات کر تے ہیں اور ادھر سے فوج کا سربراہ ان سے براہ راست بات کر کے معاملات طے بھی کر رہا ہے۔ اس ماجرے میں واضح ستم ظریفیاں حکومت کو سمجھ جانی چاہیں۔
مگر نہیں آئیں گی کیوں کہ اس وقت قومی مباحثے کے ذریعے پاکستان کی سمت درست کرنے کے عمل میں سب سے زیادہ نقصان عمران خان کی اپنی حکومت کا ہو گا۔ انہوں نے سیاسی دشمنی کی ہتھکڑی ایسے کس لی ہے کہ وہ تعاون اور مفاہمت کی جانب کوئی قدم اٹھانے یا ہاتھ بڑھانے کے قابل نہیں ہیں۔ وہ تو ابھی سے احتجاج کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔
اس کیفیت میں پاکستان کب تک رہے گا؟ اگر مستقبل کی راہ تلاش کرنی ہے تو بات چیت کی میز پر آئے بغیر یہ ممکن نہیں اور وزیر اعظم عمران اس پر تیار نہیں ہیں۔ ان کو معلوم ہے کہ ڈائیلاگ ہوا تو ملک میں طاقت کا توازن ان کے حق میں نہیں رہے گا۔ لہذا نہ ڈائیلاگ ہو سکتا ہے اور نہ حالات سنور سکتے ہیں۔
یہ ملک کبھی بھی ایسی صورت حال سے دو چار نہیں ہوا جہاں سیاسی، انتطامی، معاشی اور معاشرتی نظام اکٹھے مفلوج ہو گئے ہوں اور جن ہاتھوں سے اس فالج کا علاج ممکن ہو وہ خود اپنی انگلیاں چبا کر غیر موثر ہو چکے ہیں۔ پاکستان ایسے نہیں چل سکتا۔
موجودہ بحران ہر روز گہرا ہوتا جا رہا ہے۔ کبھی پاکستان فرسٹ ہوا کرتا تھا اب ذاتی مفادات نے اس کو لاسٹ کر دیا ہے۔ سوال سادے سے ہیں۔ جواب بھی واضح ہیں۔
نوٹ: اس تحریر میں دی جانی والی رائے مصنف کی ہے ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔