وزیر اعظم عمران خان کئی موقعوں پر جمہوریت کے ساتھ اپنی وفاداری کے عہد کا اظہار کرچکے ہیں۔ اس کے ساتھ وہ مختلف جمہوری اور ریاستی اداروں کو طاقت ور بنانے کا بھی وقتاً فوقتاً ذکر کرتے رہتے ہیں۔ وہ عموماً ماضی کی مبینہ ناکامیوں، معیشت کی زبوں حالی اور کرپشن کا ذمہ دار کمزور جمہوری اور ریاستی اداروں کو قرار دیتے ہیں۔
پاکستان فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی تین ستمبر کو سندھ سے آنے والے نوجوانوں کے ایک وفد سے ملاقات میں پاکستان کے مستقبل کو جمہوریت کے ساتھ منسلک قرار دیا۔ وہ اس سے پہلے بھی مختلف مواقع پر جمہوریت اور جمہوری حکومت سے اپنی وابستگی کا اعلان کر چکے ہیں۔
اس سے یہ بات طے ہے کہ موجودہ سیاسی اور فوجی قیادت جمہوریت کو ہی پاکستان کے روشن مستقبل کی ضمانت سمجھتے ہیں اور اسے پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتے ہیں۔
یہ بڑی نیک خواہش ہے لیکن جمہوریت صرف نیک خواہشات سے نہیں پنپ سکتی۔ اس کے لیے ایک حوصلہ افزا ماحول پیدا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے جو اس ذہنی، معاشرتی اور ثقافتی رویے کو فروغ دینے میں مدد دے۔
جمہوریت ایک پودے کی مانند ہے۔ اگر ہم اسے پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتے ہیں تو اس کو انتہائی نگہداشت کی ضرورت ہے۔ اس کو وقت پر پانی اور کھاد کی ضرورت ہے۔ اس کو موسم کی درشتگی سے بھی محفوظ رکھنے کی ضرورت ہے تب ہی یہ ایک قد آور، سایہ دار اور پھل دار درخت کی صورت بن پائے گا۔
یہی درخت ملک و قوم کو ایک محفوظ سایہ مہیا کرے گا اور ہمیں ایک ذمہ دار سول سروس، ایک مضبوط معیشت، انصاف پسندی کے اصولوں پر مبنی فعال عدالتی نظام اور سیاسی اثر رسوخ سے آزاد دفاعی ادارے فراہم کرے گا۔
مضبوط جمہوریت ہمیں ہمہ جہتی مضبوط قومی ادارے فراہم کرے گی جو دیانت داری سے اپنے پیشہ وارانہ فرائض سرانجام دیتے ہوئے معاشرتی، سیاسی، معاشی اور دفاعی ترقی میں اپنا اپنا کردار ادا کریں گے۔
لیکن جب ہم موجودہ حکومت اور اس کے مختلف اداروں بشمول دفاعی اداروں کی طرف دیکھتے ہیں تو لگتا ہے جمہوریت کی مضبوطی اور اداروں کا استحکام محض ایک خواب ہی رہے گا۔ اس وقت کوئی بھی سول ادارہ آزادی اور مروجہ قوانین کے مطابق اپنے فرائض سرانجام نہیں دے پا رہا اور نہ ہی ان کی پیشہ وارانہ رائے کا احترام یا اس پر عمل کیا جا رہا ہے۔
ہر ادارے میں مداخلت واضح نظر آ رہی ہے چاہے وہ عدلیہ ہو، وزارت خارجہ یا وزارت خزانہ، نیب ہو یا خدمات والے ادارے جیسا کہ پی آئی اے یا نام نہاد آزاد میڈیا۔
یہ اہم سول ادارے مکمل انحطاط کا شکار ہیں اور جن معاملات میں ان کی پیشہ وارانہ رائے کو مقدم سمجھا جانا چاہیے اس کو مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے غیرمتعلقہ اداروں یا افراد کی رائے پر عمل درآمد ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے۔
یہ ممکن نہیں وزارت خارجہ کے سفارت کار مالی معاملات یا معاشیات کی موشگافیوں کو مکمل طور پر سمجھ سکیں۔ ان کے پاس سطحی معلومات تو ہوں گی مگر معاشیات کی گہرائی اور مکمل معلومات صرف ماہر معاشیات کے پاس ہی ہوسکتی ہیں اور ان امور پر وزارت خزانہ یا منسلک وزارتوں کے عہدے داران ہی سیرحاصل رائے یا وضاحت پیش کر سکتے ہیں۔
اسی طرح ماہرینِ معیشت خارجہ امور کے مسائل کے بارے میں عمومی سمجھ تو رکھتے ہوں گے لیکن خارجہ معاملات کی نزاکتیں اور گہرائی ان کی سمجھ سے بالاتر ہو گی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایک جمہوری نظام میں مناسب تو یہ ہوگا کہ وزارت خارجہ کے عہدے داران ہی خارجہ امور کے حوالے سے میڈیا میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اسی طرح افواج کے آپریشنل معاملات اور ان کی تیاری، افواج کی مختلف دفاعی تنصیبات پر تعیناتی، وزارت خزانہ یا وزارت خارجہ کے عہدے داران کے دائرہ اختیار سے باہر ہونی چاہیے اور انہیں ان معاملات پر تبصرہ کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔
اس پیشہ وارانہ رویے سے یہ ادارے مضبوط ہوں گے اور ہمارے پالیسی سازوں اور جمہوری قیادت کو مناسب مشورے دینے کی حالت میں ہوں گے۔ اس سے اداروں میں اعتماد آئے گا اور وہ بہتر طریقے سے اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہو سکیں گے۔
حال میں یہ دیکھنے میں آیا کہ موجودہ ڈی جی آئی ایس پی آر، جو یقیناً ایک ماہر اور اہل فوجی افسر ہیں، تقریباً ہر مسئلے پہ چاہے اس کا تعلق خارجہ امور سے ہو، معیشت یا اطلاعات کے شعبے سے، اپنی رائے کا اظہار کھل کر کرتے ہیں۔
وہ ان بیانات کی وجہ سے سوشل میڈیا پر گرما گرم بحث کا موضوع رہے ہیں۔ ان کی اس ہفتے کی پریس کانفرنس سے ایسا لگا جیسے انہوں نے فوج کی ترجمانی کے علاوہ وزارت خارجہ کی ترجمانی کی ذمہ داری بھی سنبھال لی ہے۔
انہوں نے اپنی اخباری کانفرنس میں تقریباً مسلسل خارجہ امور کو اپنا حدف بنائے رکھا اور بتایا کہ سفارتی محاذ پر کیا کیا اقدامات اٹھائے جارہے ہیں۔ اگرچہ وہ کم و بیش پاکستان کی پالیسیوں کو ہی بیان کر رہے تھے لیکن یہ ذمہ داری ان کی نہیں تھی۔
انہیں خارجہ پالیسی کے پیچیدہ اورعمیق امور کی بجائے فوجی مسائل اور فوجی تیاریوں کے بارے میں بات کرنے کی ضرورت تھی۔
اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے معاشی پالیسی کو بھی مشق سخن بنایا۔ یقیناً یہ بھی ان کی ذمہ داریوں میں شامل نہیں تھا۔ پالیسی پر بات کرتے ہوئے غیرضروری طور پر انہوں نے موجودہ حکومت کا دفاع کیا اور ایسا تاثر دیا جیسے موجودہ معاشی مسائل کی تمام تر ذمہ داری ماضی کی حکومتوں پر آتی ہے۔
یہ خیالات بھی ان کے پیشے سے مطابقت نہیں رکھتے تھے لیکن پھر بھی انہوں نے ان غیر متعلقہ مسائل پر اپنے خیالات کا اظہار ضروری سمجھا۔ اس بات کو مد نظر رکھنا انتہائی ضروری ہے کہ مہذب ملکوں میں فوج کا کام حکومت وقت کا دفاع یا اس کی مخالفت کرنا نہیں بلکہ دفاعی میدان میں حکومت کی وضع کردہ پالیسیوں کا اطلاق کرنا ہے۔
انہوں نے میڈیا پر بھی نظر کرم کرتے ہوئے ان کی خامیوں کی نشاندہی کی اور کچھ صحافیوں کو ان کے پیشہ ورانہ تجزیوں کی بنیاد پر خصوصی تنقید کا نشانہ بنایا۔
کیا یہ اقدامات یا دوسرے اداروں کی خود ساختہ ترجمانی ان اداروں میں اعتماد کا اضافہ کرتے ہیں یا ان کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں میں اضافے کا باعث بنتے ہیں؟ ہرگز نہیں۔ اس طرح کی مداخلت کسی طرح بھی قومی مفاد میں نہیں اور کسی طرح بھی قومی اداروں کی مضبوطی کا باعث نہیں بنے گی۔
اگر ہم پی آئی اے میں کسی کمرشل ائیر لائن کے ماہر کی بجائے کسی ماہر حرب ائیر مارشل کو لگا دیں گے تو یہ کس طرح ایک کاروباری منافع بخش ادارہ بن سکے گا؟
اس طرح کی تبدیلی ایک اہم قومی ادارے کو مزید کمزور کر سکتی ہے، مضبوط ہرگز نہیں۔ ضرورت تو یہ ہے کہ کسی کمرشل ہوا بازی کے ماہر کی خدمات حاصل کی جائیں۔ اسی طرح واپڈا کو ایک غیر انجینئیر ریٹائرڈ جنرل کیسے چلا سکتا ہے؟
واپڈا کوئی فوجی یونٹ تو نہیں جہاں فوجی مہارت کی ضرورت ہو۔ اسی طرح سپارکو کو، جو ایک سائنسی ریسرچ کا ادارہ ہے، کیسے ایک جنرل جس نے ساری زندگی حربی مہارت حاصل کرنے میں گزاری، سائنس کی بلند و بالا سطح پر لے جا سکتا ہے۔
ایسے اقدامات یقیناً ان قومی اداروں کو کمزور کرتے ہیں اور کسی بھی ناکامی کی صورت میں اسے ایک فرد کی ناکامی نہیں بلکہ اس کے سپانسر ادارے کی ناکامی سمجھا جاتا ہے۔
ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ قومی اداروں کے مسائل صرف انتظامی نہیں کہ جنہیں ایک سخت گیر انتظامی امور کا ماہر ہی ٹھیک کر سکتا ہے۔ ان اداروں کو حکمرانوں کے مصمم ارادے اور پالیسی، ان شعبوں کے ماہرین اور مناسب وسائل کی ضرورت ہوتی ہے نہ کہ سخت عسکری افسران کی۔
جب تک ہم ان قومی اداروں کو آزادی کے ساتھ ان کے ماہرین کی زیر نگرانی اپنے فرائض انجام ادا کرنے نہیں دیتے، ان سے کسی بہتر کام کی توقع بھی نہ رکھیں۔
فوج اپنے اداروں کو چلانے میں مکمل آزاد ہے اور ان میں بہت کم بیرونی مداخلت ہوتی ہے۔ اس کی اجازت نہیں دی جاتی اور دینی بھی نہیں چاہیے۔ اسی وجہ سے فوج کی کارکردگی بہتر رہی ہے۔
یہی اختیارات، ماہرین کی سربراہی اور وسائل کی آزادی دوسرے قومی اداروں کو بھی ملنی چاہیے۔ ان قومی اداروں کو بغیر مداخلت کے قانون کے مطابق کام کرنے کی اجازت دینے سے جمہوریت مضبوط ہوگی اور ترقی کا سفر بھی آسان ہوگا۔