آپ یہ تحریر یہاں سن بھی سکتے ہیں
ورلڈ جسٹس پروجیکٹ کی حالیہ قانون کی حکمرانی انڈیکس میں پاکستان 128 ملکوں کی فہرست میں انتہائی پست 120 درجہ پر ہے۔ اگر علاقائی درجہ بندی پر نظر رکھیں تو چھ ممالک کی فہرست میں پاکستان دوبارہ انتہائی نچلے پانچویں درجے پر ہے۔
بنیادی انسانی حقوق کی جو ہمارے آئین میں تفصیل سے بیان کئے گئے ہیں اور جن کی ضمانت ہماری عدالتوں نے یقینی بنانی ہوتی عالمی درجہ بندی میں بھی ہم انتہائی نیچے 115 نمبر پر نظر آتے ہیں۔ دیوانی اور فوجداری انصاف مہیا کرنے میں ہم بالترتیب 118 اور 98 درجے پر فائز ہیں۔
غرض اس تفصیلی رپورٹ میں ہمارے لیے کوئی باعزت مقام نہیں ہے۔ یہ رپورٹ ہمارے لیے مزید باعث ندامت ہو جاتی ہے جب یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ رپورٹ پاکستانی عوام کے نظامِ انصاف اور قانون کی حکمرانی کے بارے میں خیالات پر مبنی ہے۔
پاکستان میں انصاف کے نظام اور قانون کی حکمرانی کی پستی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ وجود میں آنے کے بعد تسلسل سے پاکستان کی اعلی عدلیہ نے ایسے متنازع اور غیر آئینی فیصلے دیے جنہوں نے اس نظام اور اداروں پر عوام کے اعتماد کو سخت نقصان پہنچایا۔ مولوی تمیزالدین کیس ہو یا ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی، نصرت بھٹو کیس ہو یا مشرف بغاوت کیس، یہ سب اعلی عدلیہ کے کردار اور قانون کی حکمرانی پر ایک سنگین داغ ہیں۔ آئین اور طے شدہ قوانین کی پامالی ابھی تک جاری ہے اور متنازعہ پانامہ مقدمہ اس کی واضح مثال ہے۔ یہ تاریخ طے کرے گی کہ ان مقدموں کے فیصلے دباؤ کے تحت کیے گئے جن میں ایک آمر کو آئین میں ترمیم تک کی اجازت دی گئی یا یہ ان ججوں کے ضمیر کی آواز تھی۔
پاکستان میں ایک منظم طریقے سے جمہوری حکمرانوں سے حق حکمرانی عدالتی جبر سے بھی چھیننے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس سلسلے میں سابق چیف جسٹسز افتخار چودھری اور ثاقب نثار کے دور ہماری عدالتی تاریخ اور جمہوری ادوار میں خوفناک خواب کی حیثیت رکھتے ہیں جن میں عدالتی جبر کے ایک ایسے دور کا آغاز ہوا جس میں کوشش کی گئی کہ کیسے منتخب حکومتوں کو اپنی آئینی اور قانونی ذمہ داریاں ادا کرنے سے روکا جائے۔
سوو موٹو کا اختیار بےدردی سے اور غیرآئینی طور پر استعمال کرتے ہوئے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو مفلوج کیا گیا۔ یاد رہے کہ سوو موٹو کسی جج کا ذاتی اختیار نہیں بلکہ یہ سپریم کورٹ کا اجتماعی اختیار ہے جسے ان دو ججوں نے سپریم کورٹ کے دیگر ججوں سے مشورے کے بغیر اپنی ذاتی تشہیر اور مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ اس اختیار کا استعمال کرتے ہوئے دو منتخب وزیر اعظموں کو ناقابل یقین الزام پر اپیل کا موقع دیئے بغیر فارغ کر دیا گیا۔ کئی اداروں کے انتظامی امور میں بلاوجہ مداخلت کرتے ہوئے انہیں تباہی کے دہانے پر لایا گیا۔ لاہور میں پی کے ایل آئی ہسپتال ثاقب نثار کی ذاتی عداوت کا نشانہ بنا اور انہیں کوئی قانون یا برادر جج نہیں روک سکا۔
غرض یہ افراتفری ابھی بھی جاری ہے اور اس میں ہر دن نیا اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ جو جج اس تباہی کے راستے پر چلنے سے منع کرتے ہیں انہیں عبرت کی مثال بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسی اور جسٹس شوکت صدیقی اس کی واضح مثال ہیں۔ ہمارا آئین واضح طور پر پر اداروں کا دائرہ اختیار طے کر چکا ہے مگر اعلی عدلیہ پچھلے کئی سالوں سے مسلسل اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے انتظامی معاملات میں دخل اندازی کرتی آ رہی ہے۔
کسی بھی مہذب جمہوری ملک کی طرح پاکستان میں بھی ترقیاتی کام کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے اور اعلی عدلیہ کو آئین اس کی ذمہ داری کسی طرح بھی تفویض نہیں کرتا۔ اس آئینی اصول کی واضح خلاف ورزی کرتے ہوئے ثاقب نثار نے ڈیم فنڈ بنانے کا اعلان کیا اور اس میں اربوں روپے اکٹھے کیے گئے۔ کیا یہ انتظامی کام سپریم کورٹ کی آئینی ذمہ داری تھی؟ تعجب تو یہ ہے کہ ثاقب نثار کے اس عمل کے خلاف برادر ججوں نے بھی کوئی آواز نہیں اٹھائی۔
ترقیاتی پروگراموں کے بارے میں فیصلہ کرنے کے لیے بہت سارے پہلوؤں پر غور کرنا ہوتا ہے جو حکومت اور سول سروس ہی کر سکتی ہے نہ کہ کوئی چیف جسٹس۔ اگر کسی بڑے شہر میں شادی ہالوں کی ضرورت ہے تو یہ انتظامی فیصلہ ہے نہ کہ عدالتیں اس پر فیصلہ سازی کریں۔
بعض شہروں کے بنائے ہوئے نوآبادیاتی وقتوں کے ماسٹر پلان کوئی آسمانی صحیفہ نہیں ہوتے جن میں تبدیلی نہ کی جا سکے۔ شہروں کے ماسٹر پلان وقت کی ضرورتوں کے مطابق تبدیل ہوتے رہتے ہیں اور یہ انتظامی معاملات ہیں نہ کہ عدالتیں سو سالہ پرانے ماسٹر پلان کی عمل درآمد کو یقینی بنانے کی کوشش کریں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پچھلے ہفتے سپریم کورٹ کا ایک فیصلہ انتظامی معاملات میں مزید مداخلت کی واضح مثال ہے جس کے ذریعے صوبائی خودمختاری اور صوبائی حکومت کے حق حکمرانی کو سلب کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس نئے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ بحریہ ٹاؤن سے وصول شدہ 460 ارب روپے صوبائی حکومت کے حوالے کرنے کی بجائے ایک متوازی نظام کمیشن کی صورت میں قائم کر کے ترقیاتی کاموں کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ یہ کمیشن حسب معمول ایک ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں قائم کیا جائے گا۔
سپریم کورٹ نے ان ترقیاتی پروگرام کی نگرانی کے لیے ایک عمل درآمدی بینچ بھی تشکیل دے دیا ہے۔ چونکہ اب یہ فیصلہ عوامی ملکیت ہے اس لیے اس کا تنقیدی جائزہ ضروری ہے۔ یہ فیصلہ ظاہر کرتا ہے کہ سپریم کورٹ کو منتخب صوبائی حکومت پر اعتماد نہیں اور وہ یہ خطیر رقم جو کہ سندھ حکومت کے زیر انتظام زمین فروخت کرنے سے حاصل ہوئی ہے اس کے حوالے کرنے کو تیار نہیں ہے۔
سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ جس کی کوئی نظیر نہیں اور نہ ہی اس میں کسی طرح کا تدبر دکھائی دیتا ہے ایک خطرناک راستہ ہے۔ یہ فیصلہ نہ صرف صوبائی خودمختاری کو نقصان پہنچائے گا بلکہ وفاقی اکائیوں اور اداروں میں عدم اعتماد کی فضا بھی پیدا کرے گا۔ اس ناقص فیصلے کی وجہ سے ترقیاتی کاموں میں کسی بھی تنقید یا بدعنوانی کا ملبہ بھی سپریم کورٹ کے دروازے پر گرے گا جو اس کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچائے گا۔
اکثر ترقیاتی کاموں کے متاثرین عدالتوں کا رخ کرتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد ان متاثرین کو ماتحت عدالتوں سے کسی ناانصافی پر کیسے انصاف ملے گا۔ کیا سپریم کورٹ اب اس فیصلے کی بنیاد پر بدعنوانی کے خدشے سے آئندہ تمام وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے ترقیاتی پروگراموں پر انتظامی اختیارات حاصل کرے گی اور ان کی نگرانی شروع کر دے گی یا یہ بندوبست موجودہ سندھ کی حکومت تک محدود رہے گا؟
یہ ایک غور و فکر، تدبر سے عاری اور بظاہر غیر آئینی فیصلہ ہے اور اس پر فورا نظرثانی کی ضرورت ہے۔ اس فیصلے سے صوبائی حکومت اور سپریم کورٹ میں ترقیاتی پروگراموں کی عمل درآمد کے وقت تصادم کی کیفیت پیدا ہوسکتی ہے اور یہ فیصلہ اعلی عدلیہ کے لیے سنگین پچھتاوے کا باعث بھی بن سکتا ہے۔
کسی عدالت کو بھی یہ آئینی اختیار حاصل نہیں کہ وہ آئین کے تحت وفاقی اکائیوں کو دی گئی ذمہ داریاں ان سے چھین لے کیونکہ یہ حق صرف عوام کے پاس ہے۔ اس طرح کے عدالتی طرز عمل سے پاکستان قانون کی حکمرانی انڈکس میں اب شاید آخری درجہ پر ہی نہ پہنچ جائے۔
نوٹ: یہ مضمون لکھاری کی ذاتی رائے ہے اور ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔