14 سال بعد بھی میرا خوف ختم نہیں ہوا۔ جب بھی کوئی تیز رفتار گاڑی اچانک میرے قریب سے گزرتی ہے تو دل دھڑکنے لگتا ہے اور ہاتھ پاؤں کچھ دیر کے لیے شل ہو جاتے ہیں۔
20 نومبر 2006 کو اسلام آباد میں اسلامی یونیورسٹی کے قریب پیرودھائی جانے والی سڑک میں ایک چوراہے پر سادہ کپڑوں میں ملبوس ایک پک آپ گاڑی میں سوار چار افراد اچانک اپنی گاڑی سے اترے اور میری ٹیکسی کی طرف دوڑے۔
میں نے سوچا شاید ٹیکسی ڈرائیور کا کوئی معاملہ ہے، اور ٹیکسی ڈرائیور بھی خوف زدہ نظر آنے لگا اور فوراً گاڑی روک کر ہاتھ اوپر اٹھا لیا میں پچھلی سیٹ پر بیٹھا تھا اور اپنے سکول کے پرنسپل عمران کے ساتھ فون کال پر مصروف تھا۔
دیکھتے ہی دیکھتے وہ لوگ میری طرف پہنچے اور ڈرائیور کو کچھ نہیں کہا، سیدھے میری طرف لپکے۔ ایک آدمی نے میرے ہاتھ سے فون چھین لیا، دوسرے نے سیکنڈوں میں دروازہ کھول کر مجھے زبردستی نیچے اتار دیا اور میری قمیص اتار کر اور جیبوں میں جو کاغذات اور کچھ نقد رقم تھی، وہ لے لی اور وہی قمیص میری آنکھوں پر باندھ دی۔ پھر انہوں نے ہاتھ پاؤں سے پکڑ کر مجھے گھسیٹ کر اپنی گاڑی میں پچھلی سیٹ پر لٹا دیا۔
میری آنکھیں تو بند تھی اور ایسا لگ رہا تھا کہ گاڑی مختلف چوراہوں اور سڑکوں سے گزر رہی ہے۔ تقریباً ایک گھنٹے کے مسافت کے بعد محسوس ہوا کہ گاڑی ایک بڑے گیٹ سے چاردیواری کے اندر داخل ہوئی ہے۔ جب گاڑی رکی تو کچھ دیر بعد مھجے اتار دیا گیا اور دو لوگ مجھے ہاتھوں سے پکڑ کر ایک کمرے میں لے گئے اور ایک ٹھنڈے فرش پر بٹھا دیا۔ دو ڈھائی گھنٹے بعد ایک آدمی آیا اور میری آنکھیں کھول دیں۔
کمرے میں اندھیرا تھا اور دوسرے کمروں سے چیخ و پکار کی آوازیں آ رہی تھیں۔ کچھ دیر بعد ایک شخص آیا اور میری آنکھوں پر ایک بار پھر پٹی باندھ دی اور ایک کرسی بھی لے آیا اور اس کرسی پر مجھے بٹھا دیا۔ مجھے محسوس ہوا کہ میرے سامنے کچھ لوگ بیٹھے ہیں۔
سامنے بیٹھے ہوئے لوگوں میں سے ایک نے اردو میں پوچھا، ’کیسے ہو؟ بھوک تو نہیں لگی؟ اور کوئی پریشانی تو نہیں؟‘
میں نے نفی میں جواب دیا۔
دوسرے نے پوچھا، ’آپ تو بیک وقت دو اداروں کے ساتھ کام کرتے ہیں، کیا دونوں اداروں کے علم میں یہ بات ہے کہ آپ ڈان اور بی بی سی دونوں کے نمائندے ہیں؟‘
میں نے کہا، ’ہاں دونوں کے علم میں ہے۔‘
ایک تیسرے شخص نے میری داہنی طرف سے پشتو میں پوچھا، ’تم نے آخری سٹوری کون سی کی ہے؟‘
میں نے بتا دیا کہ ’لاشوں والی جو افغانستان سے لائی گئی تھیں۔‘
اس نے پوچھا، ’اس سے پہلے کون سی کی تھی؟‘
میں نے وہ بھی بتا دیا کہ ’باجوڑ مدرسے والی سٹوری جس میں 85 لوگ مارے گئے تھے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پوچھ گچھ کا یہ سلسلہ دن میں تین دفعہ دہرایا گیا اور ہر بار میری انکھوں پر پٹیاں باندھی ہوئی تھیں اور جب سوال جواب کا سلسلہ ختم ہو جاتا تو انکھوں سے پٹیاں دور کر لیتے اور اسی کمرے زمین پر بچھی ہوئی چٹائی پر چھوڑ دیتے۔ کمرے میں اتنا گھپ اندھیرا تھا کہ دیواریں تک نظر نہیں آتی تھیں۔
اگلی صبح ایک دفعہ پھر پوچھ گچھ کا سلسلہ شام تک جاری رہنے کے بعد میری آنکھوں پر پٹیاں باندھ کر دو آدمی مجھے ہاتھوں سے پکڑا کر کمرے سے باہر لے آئے۔ کمرے کے سامنے گاڑی کی آواز سنائی دے رہی تھی اور مجھے جب گاڑی میں بٹھایا جانے لگا تو پتہ چلا کہ کار ہے۔ میری دونوں طرف دو آدمی موجود تھے۔ ایک آدمی اگلی سیٹ سے بولا، ’گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ہم تمہیں چھوڑ رہے ہیں۔‘
میں دل میں کلمے کا ورد کرتا رہا۔ مجھے کوئی اندازہ نہیں تھا کہ وہ سچ کہہ رہے ہیں یا مجھے قتل کرنے کے لیے کہیں لے جا رہے ہیں۔ میری حالت بدستور خراب ہوتی جا رہی تھی اور اگلی سیٹ پر موجود شخص بار بار یہ تسلیاں دے رہا تھا کہ ’بس آپ کے ساتھ جو کام تھا وہ کام مکمل ہو گیا، آپ کے زندگی کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔‘
مگر میری تسلی نہیں ہو رہی تھی اور پوری جسم نے کانپنا شروع کر دیا تھا۔
گاڑی میں مجھے تقریباً ایک گھنٹے تک گھمایا گیا، پھر گاڑی ایک خاموش سے علاقے میں رک گئی۔ اگلی سیٹ والے بندے نے کہا، ’ہم آپ کو یہاں چھوڑ رہے ہیں، گھبرانا نہیں ہے اور تمہارے موبائل میں سم ڈال دی ہے، جب ہم یہاں سے چلے جائیں تو گھر کال کر لیں۔‘
پھر مجھے گاڑی سے اتار دیا گیا۔ گاڑی نے ریورس گیئر لگایا اور وہاں سے جانے لگی۔ میں فوراً زمین پر لیٹ گیا کہ اگر گولی چلائی گئی تو زمین پر لیٹے رہنے کی وجہ سے بچت ہو جائے گی۔ تھوڑی دیر کے بعد گاڑی کی آواز آنا بند ہو گئی۔ میں اٹھ کر بیٹھ گیا۔ آنکھوں سے پٹی اتار کر ادھر ادھر دیکھا تو جنگل تھا۔ ہلکا سا اندھیرا تھا ہر طرف مکمل سنسانی تھی۔
میں نے ایک طرف کا رخ کیا اور خدا کا شکر ادا کر کے چلنے لگا کہ نئی زندگی مل گئی ہے۔ کچھ دیر بعد ایک ویران سڑک نظر آئی۔ مجھے کوئی اندازہ نہیں تھا کہ آبادی کس طرف ہو گی، بس ایک طرف چل پڑا۔
دس، پندرہ منٹ سفر کرنے کے بعد پیچھے سے ایک گاڑی آئی۔ میں نے رکنے کا اشارہ دیا تو وہ رک گئی۔ ڈرائیور اکیلا تھا۔ میں اس کے ساتھ بیٹھ گیا۔ وہ بولا، ’اس جنگل میں کیا کر رہے ہو، یہ علاقہ تو بہت خطرناک ہے؟‘
میں نے کہا، ’راستہ بھول گیا ہوں، اسلام آباد کے قریب اتار دینا۔‘
تھوڑی دیر بعد اس نے مجھے اسلام آباد کے ایک چوک میں اتار دیا۔
میں نے موبائل آن کیا اور سب سے پہلے اپنے گھر کو فون کر کے گھر والوں کو اپنی خیریت سے مطلع کیا۔ اس کے بعد میں نے بی بی سی کے دفتر فون کر کے اپنی واپسی کا پیغام دیا۔
بی بی سی کے دفتر میں مبشر زیدی اور ہارون رشید کے علاوہ دوسرے ساتھی موجود تھے اور میری رہائی کا سنتے ہی بی بی سی کے دفتر سے دور انتظار میں کھڑے تھے۔ میری حالت دیکھ کر مبشر زیدی کی آنکھوں میں جو آنسو آئے وہ منظر میں آج تک نہیں بھول سکا۔