حکومت پنجاب نے صوبے کے تعلیمی اداروں میں اساتذہ کی قلت کو پورا کرنے کے لیے عارضی حل تلاش کرلیا ہے جس کے تحت وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کو صرف نو ماہ کے لیے ملازمتیں فراہم کرے گی۔
حالیہ دنوں میں حکومت پنجاب نے نئی بھرتیوں کی منظوری دیتے ہوئے اور بھرتیوں کے طریقہ کار کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ لاہور سمیت صوبہ بھر کے سرکاری سکولوں میں 31 ہزار ’انٹرن اساتذہ‘ کو نو ماہ کے لیے نوکری ملے گی۔
سرکاری ریکارڈ کے مطابق پنجاب کے سرکاری سکولوں میں 63 ہزار اساتذہ کی آسامیاں خالی ہیں جن پر عارضی بھرتیوں کی تیاریاں مکمل کرلیں گئیں ہیں۔
حکومت کی تیار کردہ سمری کے مطابق لاہور سمیت صوبہ بھر میں 31 ہزار انٹرن اساتذہ بھرتی کرنے کا اشارہ دے دیا گیا ہے اور ان کی تنخواہوں کے لیے 62 کروڑ روپے کا بجٹ بھی منظور کرلیا گیا ہے۔
لاہور میں 18 سو اساتذہ کی خالی آسامیوں پر 947 انٹرن اساتذہ بھرتی ہوں گے جن میں 551 پرائمری اور 396 ایلیمنٹری سکول انٹرن ٹیچر ہوں گے۔
اس مقصد کے لیے طے کردہ ڈھانچے کے لحاظ سے پرائمری انٹرن ٹچرر کو ماہانہ 18 ہزار ، ایلیمنٹری انٹرن ٹیچر کو 20 ہزار روپے ماہانہ ملیں گے اور سیکنڈری انٹرن ٹیچر کو 25 ہزار جبکہ ہائر سیکنڈری انٹرن ٹیچر کو 30 ہزار روپے ماہانہ ملیں گے۔ سکولوں کے سربراہاں ان انٹرن ٹیچروں کی نو ماہ کے لیے بھرتی کریں گے۔
اس بارے میں جب ترجمان محکمہ تعلیم پنجاب عمر خیام سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ یہ کابینہ کی منظوری سے ہونے والا حکومتی فیصلہ ہے جس کے تحت صوبے بھر کے سکولوں میں اساتذہ کی شدید قلت پر فوری قابو پانے کے لیے نو ماہ کے لیے پڑھے لکھے نوجوانوں کو قریبی سکولوں میں انٹرن اساتذہ رکھنے کا کنٹریکٹ کیا جائے گا۔
ان کے مطابق حکومتی اشتہار کے مطابق دلچسپی رکھنے والے امیدوار درخواستیں دیں گے اور اس کے بعد سرکاری طریقہ کار کے مطابق ان کی سلیکشن کر کے تعیناتی کی جائے گی۔
’بھیانک مذاق‘
ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ پنجاب میں تقرری کی مدت صرف نو ماہ رکھی گئی ہو، اس سے قبل ابتدائی نئے بھرتی کیے گئے سرکاری ملازمین کو ایک سال کنٹریکٹ اور بعد میں مستقل یا تین سال تک نوکری ملتی تھی۔
حکومت کے اس اعلان سے اساتذہ ناخوش ہیں۔ ٹیچرز ایسوسی ایشن پنجاب کے رہنما رانا لیاقت علی نے اس بارے میں انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ پنجاب حکومت کا تعلیم یافتہ نوجوانوں کو ’روزگار کی فراہمی کے نام پر بھیانک مذاق ہے۔‘
انہوں نے سوال کیا: ’کیا حکومت نے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کو دیہاڑی دار سمجھ رکھا ہے؟‘
انہوں نےکہاکہ صوبے بھر میں ان 31 ہزار نوکریوں کے لیے لاکھوں بے روز گار درخواستیں دینے کو تیار ہیں۔ اور اتنی کوششوں کے بعد جو تعینات ہوں گے وہ بھی صرف نو ماہ کے لیے تو یہ وقت تو موجودہ حالات میں سکول بند ہونے اور کھلنے میں ہی گزر جائے گا۔
رانا لیاقت علی نے کہا: ’جو نوجوان روزگار حاصل کر بھی لیں گے جب انہیں نو ماہ بعد فارغ کیا جائے گا تو وہ کہاں جائیں گے؟‘
ان کے مطابق ’حکومت اگر مالی بدحالی کا شکار ہے تو اس میں نوجوانوں کا کیا قصور ہے؟‘
انہوں نے الزام عائد کیا یہ فیصلہ کر کے حکومت نے سال کے 12ماہ میں سے تین ماہ گرمیوں کی چھٹیوں کی تنخواہ نکال دی۔
رانا لیاقت علی نے اس طریقہ کار کو مسترد کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ حکومت پہلے والا طریقہ اختیار کرے تاکہ نوجوانوں کا مستقبل محفوظ ہوسکے۔
درخواست دینے کے خواہش مند ساہیوال کے ایم اے ایم ایڈ پاس نوجوان ہاشم علی نے کہا کہ اس طرح کا طریقہ کار تو نئی نجی طور پر شروع ہونے والی کمپپنیاں بھی طے نہیں کرتیں۔
ان کے مطابق حکومتی سطح پر ملازمت حاصل کرنے کی کوششں جتنی مشکل ہے وہ سب جانتے ہیں اس کے باوجود تنخواہیں بھی کم ہیں اور دورانیہ بھی نو ماہ رکھا گیا ہے جیسے تعلیم یافتہ نوجوانوں سے مذاق کیا جارہا ہو۔ ’اگر مطلوبہ انٹرن ٹیچر بھرتی ہو بھی جائیں تو نو ماہ بعد پھر وہی صورت حال ہوگی اور دوبارہ کئی ماہ یا سال بعد سکولوں میں اساتذہ کی کمی برقرار رہے گی۔‘
انہوں نے کہا: ’اس ملک میں تعلیم حاصل کرنے کے باوجود بھی باعزت روزگار حاصل کرنا مشکل ہوچکا ہے جبکہ دوسری جانب حکومت خوش حالی کے دعوے کرتی ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ہاشم کا کہنا تھا کہ تعلیم کے اخراجات بھی کئی گنا بڑھ چکے ہیں اور پالیسی سازوں کو شاید یہ اندازہ نہیں کہ اس طرح کے اقدامات سے خواندگی کی شرح میں غیر معمولی کمی واقع ہوگی۔ ’لہذا ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں اس پالیسی کو تبدیل کیا جائے۔‘
اس بارے میں موقف جاننے کے لیے بہاولپور کی فرسٹ ڈویژن سے ایم اے انگلش اور ایم فل پاس فریحہ نعمان سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ وہ ایک سال قبل بہاولپور یونیورسٹی سے ایم فل مکمل کر کے اب فارغ گھر بیٹھی ہیں۔
انہوں نے محلے کے بچوں کو ٹیوشن پڑھا کر اپنی تعلیم مکمل کی۔ فریحہ نعمان نے بتایا: ’والد نجی کمپنی میں گارڈ ہیں اور ان کی تنخواہ سے گھر کا چولہا مشکل سے چلتا ہے۔ تو میں نے سوچا تھا سرکاری ملازمت یا بہتر روزگار سے ان کا سہارا بنوں گی۔‘
ان کے تین بہن بھائی ابھی سکول کالج میں پڑھتے ہیں اور ان کے اخراجات بھی ہوتے ہیں۔ فریحہ نے کہا کہ وہ سرکاری ملازمت حاصل کرنے کی کوشش میں تھیں لیکن ٹیچنگ کی بھرتیاں نہیں ہورہی تھیں پر اب سنا ہےحکومت انٹرن استاتذہ بھرتی کرنا چاہتی تو خوشی ہوئی اور درخواست دینے کی تاریخ کے اعلان کا انتظار کر رہی ہیں۔
مگر انہیں یہ جان کر مایوسی ہوئی کہ حکومت صرف نو ماہ کے لیے بھرتیاں کرنا چاہتی۔ ’اتنے کم عرصہ کے لیے نوکری مل بھی جائے تو کیا فائدہ؟‘
انہوں نے کہا کہ ایوانوں میں بیٹھے لوگ متوسط طبقہ کی مشکلات کا مذاق اڑانے کی بجائے ان کے مسائل کو سنجیدہ سمجھیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ٹیچنگ کا شعبہ پسماندہ علاقوں میں رہنے والی زیادہ تر لڑکیوں کے لیے خواب ہوتا ہے اسی لیے وہ محنت سے پڑھائی کرتی ہیں تاکہ باعزت روزگار حاصل کر سکیں۔ لیکن شاید قانون سازوں کو عام گھرانوں کی مشکلات کا بھی اندازہ نہیں ہے ورنہ ایسی پالیسیاں نہ بنائیں۔