پچھلے چھ ماہ سے لاپتہ دیبا نامی خاتون لاہور پولیس کی تفتیش، مختلف جگہوں پر چھاپوں اور کوششوں کے بعد بلاآخر پشاور سے ملحقہ علاقے ترناب فارم کے ایک سکول سے بازیاب کروا لی گئی ہیں جبکہ ملزم کے قبضے سے ایک کروڑ 47 لاکھ روپے بھی برآمد کر لیے گئے۔
لاہور کے تھانہ رنگ محل پولیس نے لاپتہ خاتون کا ٹھکانہ معلوم کرنے کے بعد تھانہ چمکنی کو معاونت کی درخواست کی جس کے بعد چمکنی پولیس کی ٹیم نے پنجاب پولیس کے ہمراہ ترناب فارم میں چھاپہ مار کر خاتون کو بازیاب جب کہ ملزم وسیم کو گرفتار کر لیا۔
تھانہ چمکنی کے ایس ایچ او ساجد خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ خاتون ترناب میں واقع ایک سکول کی چھت پر کرائے کے مکان میں پچھلے چند ماہ سے رہ رہی تھیں۔
ایس ایچ او نے مزید بتایا کہ جس وقت انہوں نے کمرے کا دروازہ کھولا تو خاتون کمرے کے ایک کونے میں فرش پربیٹھی تھیں، جب کہ ملزم بھی کمرے میں ہی موجود تھا۔
پولیس کے مطابق خاتون شادی شدہ ہیں اور ان کی گمشدگی کی ایف آئی آر پہلے سے ان کے شوہر کے خلاف کٹ چکی تھی۔ تاہم تین ماہ کی حراست اور ثبوت نہ ملنے کی بنیاد پر ان کی ضمانت ہو گئی۔
خاتون کے لاپتہ ہونے کا اصل ماجرا کیا تھا؟
تھانہ رنگ محل میں اس کیس کے تفتیشی افسر جمشید عباس تارڑ نے انڈپینڈنٹ اردو کو تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ملزم پولیس کی تحویل میں ہے جب کہ مسماۃ دیبا بھی لیڈی پولیس کانسٹیبل کی نگرانی میں ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ چند سال قبل اس خاتون نے پسند کی شادی کی تھی جو کہ زیادہ دیر نہیں چل سکی اور خاتون میکے جا کر بیٹھ گئیں۔
’اس دوران دیبا کی ملاقات انٹرنیٹ پرکوئٹہ کے ایک لڑکے وسیم سے ہوئی جنہوں نے انہیں یہ جھانسہ دیا کہ وہ امریکہ میں رہتے ہیں اور دیبا سے شادی کر کے وہ انہیں بھی امریکہ لے جائیں گے۔ چونکہ دیبا اپنی شادی شدہ زندگی سے ناخوش تھیں لہذا انہوں نے سوچا کہ امریکہ جاکر ایک نئی زندگی کا آغاز کر لیں گی۔‘
تفتیشی افسر نے کہا کہ وسیم سے انٹرنیٹ پر ملاقات کے بعد دیبا نے اپنے والدین سے اصرار کیا کہ انہیں جائیداد میں سے حصہ دیا جائے۔
’دیبا کے والدین نے شاید اسی تناظر میں تقریباً ڈیڑھ کروڑ روپے الماری میں رکھے تھے۔ جو ایک دن دیبا چپکے سے نکال کر لے جاتی ہیں۔ وسیم پہلے انہیں بلوچستان لے گیا تاہم جب وہاں حالات مواقف نظر نہ آئے تو انہیں پشاور کے پاس ترناب کے علاقے میں لے آیا۔ دیبا نے اس دوران پشاور کی عدالت میں خلع کے لیے درخواست بھی جمع کی۔‘
جمشید عباس کے مطابق اس تمام عرصے میں دیبا اور وسیم کے بارے میں کسی کو خبر نہیں تھی کہ وہ کہاں ہیں۔ وسیم ایک جانب خاتون کو دھوکے سے روکے ہوئے تھا تو دوسری جانب اس کو ’مارنے پیٹنے‘ بھی لگا تھا۔
خیال رہے کہ وسیم بھی پہلے سے شادی شدہ اور ایک بچے کا باپ تھا۔
’جب دیبا کے شوہر کا کیس میرے پاس آیا تو میں نے نوجوان سے تمام معاملے کا پوچھا۔ میں نے ان سے موبائل سم حاصل کرکے گھات بٹھا دی کہ کسی نہ کسی دن تو دیبا اس پر کال کرے گی اور وہی ہوا۔ دیبا نے میسج کیا جس میں وہ اپنے شوہر کے ساتھ غلط فہمیوں کو کوس رہی تھیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تفتیشی افسر جمشید عباس کے مطابق انہوں نے دیبا کے شوہر سے موبائل سم حاصل کرکے اسے ایکٹیو رکھتے ہوئے اس کی مانیٹرنگ شروع کر دی اور کچھ عرصہ بعد انہیں اس وقت کامیابی ملی جب دیبا نے اسی سم پر اپنے شوہر سے رابطہ کرنے کی کوشش کی۔
موبائل پیغامات سے پولیس کو یہ بھی پتہ چلا کہ گمشدہ لڑکی خیبر پختونخوا کے علاقے ترناب فارم میں رہائش پذیر ہیں۔
تفتیشی افسر نے بتایا کہ اس معلومات کے بعد انہوں نے خیبر پختونخوا پولیس سے رابطہ کیا اور ان کی مدد سے ’مغویہ‘ تک رسائی میں کامیاب ہوئے۔
پنجاب پولیس نے گذشتہ ہفتے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ دیبا کو بازیاب کرتے وقت جو رقم انہوں نے برآمد کی ، وہ پولیس کے پاس ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو کے سوال پر سب انسپکٹر جمشید عباس نے بتایا کہ ملزم نے کل ایک کروڑ 57 لاکھ سے چند لاکھ خرچ کر لیے تھے جب کہ باقی رقم پولیس نے ان سے برآمد کر لی۔
خاتون کی جانب سے اتنی بڑی رقم ملنے کے بعد ملزم فرار کیوں نہیں ہوا؟ اس پر جمشید تارڑ نے بتایا کہ ملزم سب کچھ قانونی طریقے سے کرنا چاہ رہا تھا۔
’ملزم خلع کا کیس فائل کرنے کے بعد (جو کہ ابھی تک عدالت میں ہے) خاتون کو اس کے شوہر سے طلاق دلوا کر خود اس سے شادی کرکے بعد میں اس کو طلاق دینے کی نیت لگائے بیٹھا تھا۔‘
پولیس کا کہنا ہےکہ ملزم وسیم کو پاکستان پینل کوڈ کے دفعہ 365-بی کے تحت گرفتار کیا گیا ہے، تاہم اگر خاتون کی رضامندگی پر ان کاطبی معائنہ ہوا تو مزید دفعات بھی لگ سکتی ہیں۔