لاہور: بہادر خاتون نے فیس بک کے ذریعے چور پکڑوا دیے

پکڑے جانے والے دونوں چوروں نے نہ صرف سامان واپس کیا بلکہ متاثرہ گھر والوں سے معافی بھی مانگی۔

فیس بک پر اس خاتون نے لمحہ بہ لمحہ اپ ڈیٹس دیں(فیس بک گریب)

لاہور میں ایک خاتون نے ہفتے کی رات اپنی حاضر دماغی اور سوشل میڈیا کی مدد سے گھر آئے چوروں کو پکڑوا دیا۔

لاہور کے علاقے ماڈل ٹاؤن ایکسٹنشن ایم بلاک میں رہنے والی صبا بانو کرونا وائرس کا شبہ ہونے کی وجہ سے مکان کی اوپر والی منزل کے ایک کمرے میں خود کو قرنطینہ کیے ہوئے تھیں کہ ہفتے کی شب آٹھ بج کر 40 منٹ پر ان کے گھر میں دو ڈاکو گھس آئے۔

اس وقت مکان کی نچلی منزل پر صبا کی بہن، ان کے بچے اور والد تھے، جو کھانا کھانے کی تیاری کر رہے تھے۔ 'میں اپنے کمرے میں بیٹھی ہیڈ فونز لگا کر فلم دیکھ رہی تھی کہ مجھے محسوس ہوا کہ جیسے کسی کے چیخنے کی آواز آ رہی ہے۔ 

'پہلے تو میں نے دھیان نہیں دیا مگر آواز اتنی زیادہ اور جانی پہچانی لگی کہ میں نے ہیڈ فونز اتارے تو مجھے معلوم ہوا کہ وہ میری بہن چیخ رہی تھی۔ میں جلدی سے کمرے سے باہر نکلی اور سیڑھیوں کی طرف بھاگی، میں نے سیڑھیوں سے نیچے دیکھا کہ دو لوگ میرے ابو کو گھسیٹ کر لے جا رہے ہیں اور ابو ان سے کہہ رہے ہیں کہ ہمارے پاس کچھ نہیں ہے، آپ کو جو لےجانا ہے وہ لے جائیں۔'

صبا نے مزید بتایا 'میں فوراً الٹے قدموں اپنے کمرے میں لوٹی اور کمرے کا دروازہ بند کر کے اس کے آگے صوفہ رکھ دیا۔ یہ تو مجھے یقین تھا کہ وہ اوپر آئیں گے مگر میں اس سے پہلے کسی نہ کسی کو اطلاع کرنا چاہتی تھی۔

'پہلے تو مجھے کچھ سمجھ نہیں آیا، ایسے جیسے ذہن بالکل خالی ہو پھر میں نے سوچا فیس بک پر سٹیٹس لگا دیتی ہوں کوئی تو پڑھے گا۔ پہلے میں نے سٹیٹس ڈالا کہ میرے گھر میں ڈاکو گھس آئے ہیں، میرے ہاتھ اتنے کانپ رہے تھے کہ اس سے زیادہ مجھ سے ٹائپ ہی نہیں ہوا، پھر میں نے ایک اور سٹیٹس ڈالا اوراس میں میں نے گھر کا پتہ بھی درج کیا۔

'اس کے بعد مجھے اس پر کمینٹس آنا شروع ہو گئے، میری ایک دوست نے اسی وقت مجھے کال کی اور مشورہ دیا کہ میں 15 پر پولیس کو کال کروں۔ میں نے فوراً کال کی تو انہوں نے فوراً جواب دیا۔ میں نے انہیں سب کچھ بتایا،جس کے بعد بار بار مجھے 15 سے کال آنی شروع ہو گئی کہ انہیں گھر نہیں مل رہا، مجھے غصہ آ گیا کہ پولیس کے لیے گھر ڈھونڈنا مشکل نہیں ہونا چاہیے تھا۔

'میرے بھائی جو الگ رہتے ہیں، انہوں نے بھی میرا سٹیٹس پڑھ کر وزیر اعلیٰ پنجاب کی ہیلپ لائن پر کال کی اسی طرح میری ایک دوست عائشہ بھٹہ جو صوبائی حکومت سے منسلک ہے، انہوں نے بھی اپنے ذرائع کو متحرک کیا۔  

'اسی اثنا میں میرے کمرے کے دروازے کو کسی نے باہر سے کھولنے کی کوشش کی مگر شاید وہ یہ سمجھے کہ اندر کوئی نہیں اور دروازہ لاک ہے۔ میرے گھر والوں نے بھی انہیں یہ نہیں بتایا کہ میں اوپر ہوں۔ پھر انہوں نے میری بہن کو دھمکی دی کہ وہ اسے نقصان پہنچائیں گے اس لیے وہ اپنا زیور ان کے حوالے کر دے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

'اس پر میری17 سالہ بھانجی کو غصہ آیا تو اس نے گلاس اٹھا کر ڈاکو کو مارا، جواب میں انہوں نے اس کے سر پر چاقو مار کر زخمی کر دیا اور میری بہن کو بھی چاقو سے زخمی کیا، انہیں بعد میں ٹانکے لگوانے پڑے۔

'وہ بار بار ابو کو دھمکیاں دے رہے تھے کہ وہ انہیں مار دیں گے، وہ یہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ اوپر میں بیٹھ کر پولیس سے رابطے میں ہوں۔ میں نے فیس بک پر لائیو بھی چلا دیا اور فون ایسی جگہ رکھ دیا کہ کسی کو نظر نہ آئے۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ اگر کوئی کمرے میں آ بھی جاتا ہے تو کم ازکم لوگ یہ تو سن پائیں گے کہ میرے گھر میں کیا ہو رہا ہے۔

'میرے فیس بک لائیو سے ہی پولیس کو میری لوکیشن کا معلوم ہوا۔ بالاخر پولیس پہنچی اور انہوں نے گھر کو چاروں طرف سے گھیرے میں لے لیا۔ اس کے بعد ڈاکو گھر کی چھت پر چڑھے تاکہ بھاگ سکیں لیکن اردگرد کی چھتوں پر بھی پولیس کھڑی تھی ان کے لیے بھاگنے کا کوئی راستہ نہیں بچا تھا۔ انہوں نے ہوائی فائرنگ بھی کی مگر پھر پولیس نے انہیں گرفتار کر لیا۔'

صبا کہتی ہیں کہ فیس بک پر سٹیٹس ڈالنے کے بعد کئی دوستوں نے پولیس کو فون کیا اور بہت سے دوست گھر کے باہربھی آ کر کھڑے ہوگئے۔ اس کیس کی ایف آئی آر تھانہ فیصل ٹاؤن میں درج کی گئی ہے جب کہ دونوں ملزمان اس وقت پولیس حراست میں ہیں۔

تھانہ فیصل ٹاؤن کے ایس ایچ او قادر علی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ صبا نے سوشل میڈیا پر مدد مانگنے کے لیے سٹیٹس ڈالا جس کے بعد ان کے دوستوں نے 15 پر کال کرنی شروع کر دی۔ میں وہیں قریب ہی تھا لہٰذا جلدی جائے وقوعہ پر پہنچ گیا۔

قادر کے مطابق ملزمان نے جو چیزیں چوری کی تھیں وہ واپس رکھ دیں اور گھر والوں سے معافی بھی مانگی۔ انہوں نے بتایا کہ ملزمان کی عمر 20،22 سال ہے جبکہ ان میں سے ایک کا کریمنل ریکارڈ بھی موجود ہے۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی میری کہانی