سری لنکا حملوں کے پیچھے کون ہے؟

سری لنکا میں اتوار کو گرجا گھروں اور پرتیعش ہوٹلوں میں ہونے والے متعدد دھماکوں میں ہلاکتوں کی تعداد تین سو سے تجاوز کر گئی ہے جبکہ سرکاری حکام غیرمعروف شدت پسند تنظیم نیشنل توحید جماعت کو ان حملوں کا ذمہ دار سمجھ رہے ہیں۔

گرجا گھروں اور ہوٹلوں میں ہونے والے دھماکوں میں ہلاکتوں کی تعداد تین سو سے تجاوز کر گئی ہے۔تصویر: روئٹرز

سری لنکا میں اتوار کو گرجا گھروں اور پرتعیش ہوٹلوں میں ہونے والے متعدد دھماکوں میں ہلاکتوں کی تعداد تین سو سے تجاوز کر گئی ہے جبکہ سرکاری حکام غیرمعروف شدت پسند تنظیم نیشنل توحید جماعت کو ان حملوں کا ذمہ دار سمجھ رہے ہیں۔

ان حملوں میں کس کا ہاتھ ہے، اس بارے میں حکومت کی جانب سے تاحال بیان آنا باقی ہے لیکن وزرا اور حکام کے خیال میں کوئی شدت پسند تنظیم ہی ان دھماکوں کے پیچھے ہے۔

اتوار کو وزیر مواصلات ہارن فرنینڈو نے ایک انٹیلی جنس رپورٹ سوشل میڈیا پر جاری کی اور حکومت پر بر وقت کارروائی نہ کرنے کا الزام لگایا۔

تین صفحات پر مشتمل اس رپورٹ میں نیشنل توحید جماعت نامی تنظیم کی جانب سے ’مبینہ طور پر منصوبہ بندی کے ساتھ حملوں‘ کی طرف اشارہ کیا گیا تھا اور یہ رپورٹ وزارت دفاع نے آئی جی پولیس کو دس روز قبل بھیجی تھی۔

رپورٹ میں چار مشتبہ افراد کے نام موجود تھے جن میں سے ایک کے بارے میں خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ وہ آٹھویں اور آخری دھماکے میں ہلاک ہو گئے ہیں۔

اس دستاویز میں تحریر تھا کہ ’انٹرنیشنل انٹیلی جنس کے مطابق نیشنل توحید جماعت کے ارکان نے سری لنکا میں انڈین ہائی کمیشن اور بڑے گرجا گھروں کو نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی کر رکھی ہے۔‘

نیشنل توحید جماعت نامی اس تنظیم کے بارے میں بہت تھوڑی معلومات موجود ہیں تاہم خفیہ رپورٹ میں اس کے ایک رکن کا ذکر کیا گیا ہے، جس کا نام رلوان بتایا گیا ہے اور جس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ گذشتہ دسمبر میں مرکزی سری لنکا میں بدھ مذہب سے تعلق رکھنے والی شخصیات کے مجسموں کی بے حرمتی کرنے کے واقعے میں ملوث تھے۔ اسی واقعے کے بعد ملک میں مسلمان اور بدھ مذہب سے تعلق رکھنے والوں میں شدید کشیدگی پیدا ہو گئی تھی۔

پولیس رپورٹ میں کہا گیا کہ اس واقعے کے بعد سے رلوان چھپ گئے تھے۔ ان کی شناخت نیشنل توحید جماعت کے مشتبہ لیڈر زہران ہاشم کے بھائی کے طور پر بھی ہوئی ہے۔

نیشنل توحید جماعت اس قدر خفیہ طریقے سے کام کر رہی تھی کہ بہت سے سرکاری حکام کو اس کی موجودگی کا علم نہیں تھا۔ مسلم امور کی وزارت کے ڈائریکٹر اے بی ایم اشرف نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ ’ہم نے کل تک کبھی اس شدت پسند تنظیم کے بارے میں سنا تک نہیں تھا۔‘

 یہ تنظیم سوشل میڈیا پر بھی اتنی متحرک نہیں ہے، تاہم ان کا ایک فیس بک صفحہ سامنے آیا ہے جسے کئی ہفتوں سے اپ ڈیٹ نہیں کیا گیا، جبکہ ان کا ٹوئٹر اکاؤنٹ مارچ 2018 سے اپ ڈیٹ نہیں کیا گیا ہے۔

کئی وزرا نے کہا ہے کہ اتوار کو ہونے والے دہشت گردی کے حملے ملکی تاریخ کی 30 سالہ خانہ جنگی سے بھی بدترین تھے اور اگر حکومت ذمہ داری کا مظاہرہ کرتی تو ان سے بچا جا سکتا تھا۔

اربن ڈیویلپمنٹ کے وزیر رؤف حکیم نے انٹیلی جنس رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’ہمیں افسوس ہے کہ ان حملوں کے بارے میں خفیہ اداروں کی جانب سے مہیا کردہ معلومات سے آرچ بشپ کو آگاہ نہیں کیا گیا۔ اگر بر وقت ایسا ہو جاتا تو ہم اس خون خرابے کو روک سکتے تھے۔‘

سری لنکا میں ایک مسلم تنظیم جمعیت العلما کے حکام کا کہنا ہے کہ وہ دیکھ رہے ہیں کہ شدت پسند تحریکوں میں اضافہ ہو رہا ہے اور وہ اس بارے میں حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو آگاہ کر رہے ہیں۔

تنظیم کے مطابق سری لنکا وہ پہلا ملک ہے جس نے 2014 میں شدت پسند تنظیم داعش کی مذمت کی تھی اور کہا تھا کہ شدت پسند تنظیموں کے نظریے کا اسلام کے ساتھ تعلق نہیں۔

جمعیت العلما نے سیکریٹری فار یوتھ افیئرز شیخ اکرم نور رمیض نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ ’بدقسمتی سے داعش کے بعد بعض نوجوان اس خیال سے متاثر ہوئے اور گذشتہ دو سالوں میں ہم نے سوشل میڈیا پر اس طرح کے رویے دیکھے ہیں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’ہمارے خیال میں اتوار کو ہونے والے حملوں میں بین الاقوامی ہاتھ ہے۔‘

حکام کا کہنا ہے کہ 24 مشتبہ افراد کو حراست میں لے لیا گیا ہے جبکہ مجرموں کو پکڑنے کے لیے کریک ڈاؤن آپریشن جاری ہے۔

پولیس نے دو منزلہ گھر میں رہنے والی ایک نوجوان خاتون کو پیر کے روز حراست میں لیا، تاہم پولیس نے حراست میں لی جانے والے خاتون کے بارے میں کچھ نہیں بتایا۔

جائے وقوعہ سے تین گھروں کے فاصلے پر رہنے والی اروندی کوشلیا کہتی ہیں کہ ’ہم حیران رہ گئے۔ ہم یہاں پر پچھلے 40 سالوں سے رہ رہے ہیں اور یہ خاندان بھی ہم سے کچھ  فاصلے پر گذشتہ 20 سالوں سے رہائش پذیر ہے۔ کس نے سوچا ہوگا کہ ان کے پاس گھر میں اسلحہ اور بم پڑے ہیں؟‘

انھوں نے اس خاندان کے بارے میں مزید بتایا کہ یہ لوگ کسی سے ملتے جلتے نہیں تھے۔ ’ہم اپنے بعض مسلمان پڑوسیوں کو جانتے ہیں لیکن یہ خاندان ہم سب سے دور رہتا تھا۔‘

ایک اور پڑوسی نے کہا: ’ہم نے تو ان کے بچے بھی کبھی نہیں دیکھے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا