یہ کہانی پروینہ آہنگر کی نہیں کہ جو 30 برسوں سے لاپتہ بیٹے کے انتظار میں ہر ماہ ایک روز کے لیے پرتاپ پارک میں دھرنا دیتی ہیں بلکہ یہ کہانی دس ہزار سے زائد ان عورتوں کی ہے جن کے شوہر گرفتاری کے بعد کبھی گھر نہیں لوٹے لیکن وہ آج بھی گھر کی دہلیز پر منتظر بیٹھی ہیں۔
یہ کہانی کنن پوشپورہ کی دوشیزہ بختی کی نہیں جو نوے کی دہائی کی اس درد ناک رات کو نہیں بھولی ہے کہ جس نے گاؤں کی 40 سے زائد عورتوں کی عصمت دری کا منظر دیکھنے کے بعد کھڑکی سے چھلانگ لگانے کی کوشش کی تھی کہ فوجیوں نے انہیں بھی نوچ لیا بلکہ یہ کہانی شوپیان کی آسیہ اور نیلوفر کی ہے کہ جن کی رات کی تاریکی میں اپنی زمینوں پر عصمت لوٹی گئی اور ان کی لاشیں کئی روز کے بعد ان کے لواحقین کو کھیتوں میں ملیں تھیں۔ خون میں لت پت ان کے کپڑے اب بھی دیوار پر ٹنگے ہوئے ہیں۔
یہ تحریر آپ مصنفہ کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں
اس کہانی کا مرکزی کردار آٹھ سال کی گجر لڑکی آصفہ نہیں ہے جس کو مندر میں لے جا کر عصمت دری کے بعد پتھروں سے لہولہان کردیا گیا تھا بلکہ ان درجنوں آصفاوں کی ہے جن کو لائن آف کنٹرول میں رہائش کی وجہ سے سکول جاتے وقت تلاشی کے دوران روزانہ جسمانی تشدد سے گزرنا پڑتا ہے۔
میری اس کہانی میں درد پورہ کی سو سے زائد ان خواتین کا ذکر نہیں ہوگا جن کو ہم نے ’آدھی بیوائیں‘ کا نام دیا ہے بلکہ شنگلی پورہ کی جسمانی طور معذور ان 500 بیواؤں کا تذکرہ ہوگا جن کے خاوند توسہ میدان کی خوبصورت وادیوں میں گھاس پھوس یا مویشی چروانے کے دوران اس وقت ہلاک ہوئے جب فوجی اس علاقے میں ہتھیار چلانے کی مشق کے بعد آتش گیر مادہ یا بارود اٹھانا بھول جاتےتھے۔
میں اپنی اس روداد میں چالیس ہزار سے زائد ان دوشیزاوں کا بھی ذکر نہیں کروں گی جن کی شادی اس لیے بھی نہ ہوسکی کیونکہ آزادی کی تحریک میں ہلاک ہونے والے ایک لاکھ سے زائد افراد میں سے بعض سے ان کی شادی طے ہوچکی تھی بلکہ اس کہانی میں ان شادی شدہ عورتوں کا تذکرہ ہوگا جو تلاشی کی کارروائی کے دوران گھروں کے باہر اس انتظار میں رہتی ہیں، جب ان کے شوہروں کو ہانک کر دور کسی میدان میں شناختی پریڈ کے لیے لے جایا جاتا تھا، کہ وہ واپس لوٹیں گے یا نہیں۔ ان عورتوں کو دروازے پر بیٹھنے کی عادت پڑگئی ہے۔
میری اس کہانی میں آپ کو ان ہزاروں عورتوں کی چیخیں نہیں سنائی دیں گی جن کے والد، بھائی، بیٹے اور خاوند دہائیوں سے بھارتی جیلوں میں پابند سلاسل ہیں مگر ان تیرہ ہزار ماؤں کی تڑپ کو محسوس کرنا پڑے گا جن کے معصوم بچوں کو چار اگست 2019 کی شب بستروں سے نکال کر نامعلوم مقام پر جیلوں میں قید کردیا گیا۔ بیشتر مائیں تب سے سوئی نہیں ہیں۔
اس کہانی میں 40 لاکھ عورتوں کا احوال نہیں ہے جنہیں جرت، طاقت، شہادت اور شجاعت کی علامت قرار دیا جاتا ہے مگر ان کے جگر موم سے پتھر کیسے بن گئے ہیں اور ان کی آنکھوں کا پانی خشک کیوں ہوگیا ہے اس کے بیانیے کے لیے الفاظ ملتے ہی شامل کروں گی۔
اس کہانی کا مرکزی کردار وہ پیشہ ور خواتین بھی نہیں ہوسکتیں جو سکیورٹی کے پہرے میں ہر دس بیس میٹر کے فاصلے پر اپنا آئی ڈی کارڈ دکھانے سے تنگ آکر باہر جانا ہی ترک کرچکی ہیں۔ انہیں اب فوجیوں کی گھورتی نظروں سے بچنے کے لیے سکارف میں اپنا منہ چھپانا نہیں پڑتا مگر میری کہانی میں امیراکدل پل پر مچھلیاں بیچنے والی 60 برس کی گاشہ دید موجود ہے جو قریب فوجی بنکر میں جوانوں کے منہ سے رال ٹپکنے کی عادت کو اب تفریح سمجھتی ہیں اور ان کے سامنے مچھلیوں کی آنتیں نکالنے کا منظر بار بار دہراتی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس کہانی میں پولیس وردی پہننے والی روپا دیوی کو بھی کوئی جگہ نہیں ملے گی جو تفتیشی مرکز میں عورتوں کی تلاشی لیتے وقت انہیں برہنہ کرتی ہیں اور مرد ساتھیوں کی ہنسی میں شامل ہوکر سگریٹ کے کش لیتی ہیں مگر میں اروندھتی رائے کا ذکر کروں گی کہ جو ان بے بس عورتوں سے مل کر ان کے زخموں پر مرہم رکھتی ہیں اور ان کی آواز بن کر انہیں زندہ رہنے کا حوصلہ دیتی ہیں۔
میری کہانی کے کرداروں میں ان فوجیوں کا ذکر نہیں ہوگا جو این کاؤنٹر کے دوران مارے گئے نوجوانوں کی بے حرمتی اور گھروں کو بارود سے اُڑانے کے منظر دیکھ کر خودکشی کرتے جا رہے ہیں بلکہ ان فوجیوں کا ذکر ضروری ہے جنہوں نے جنوبی کشمیر کے دھان کے سٹاک میں آگ لگا کر بیشتر خاندانوں کو اگلے سال کی نئی فصل تک بھکاری بنا دیا ہے۔
میں نے برہان وانی کی ماں کو بھی کہانی میں شامل نہیں کیا جس نے بیٹے کو اعلی تعلیم دینے کا خواب دیکھا تھا مگر میں ان دس ہزار سے زائد نوجوانوں کا ذکر کروں گی جو برہان کی ہلاکت کے بعد پیلٹ لگنے سے بینائی سے محروم کرائے گئے ہیں اور ان کی مائیں ہسپتالوں کو گھر سمجھتی ہیں۔
میں اپنی کہانی میں چار برس کی حبہ کا ذکر نہیں کروں گی جو پیلٹ لگنے سے اب تک کئی آپریشن کرا چکی ہیں مگر میں انشا کی بہادری کی داستان شامل کروں گی کہ جس نے بینائی سے محروم ہونے کے باوجود بورڈ کا امتحان پاس کیا۔
میری کہانی میں وہ 65 فیصد عورتیں نہیں ہیں جو پرتشدد حالات سے ذہنی امراض کا شکار ہوچکی ہیں مگر وہ چند نفسیاتی ماہرین شامل ہیں جو ذہنی مریضوں کی بڑھتی تعداد اور علاج کرتے کرتے خود ذہنی امراض کا شکار ہوچکے ہیں۔
ان عورتوں کا ذکر کرنا لازم نہیں ہے جو گھریلو تشدد سے متاثر اپنی بات کہنے کی ہمت کھو چکی ہیں اور معاشرے کو بکھرتے دیکھ کر اپنے وجود سے خائف ہوچکی ہیں۔ جب معاشرے پر اتنی دہشت اور خوف لرزاں ہے تو پُرتشدد حالات میں کسے فرصت کہ معاشرے کے دوسرے مسائل پر بات کرے۔
یہ کہانی ہے اس عورت کی جو جموں و کشمیر کی دلکش وادیوں میں رہتی ہے۔ سیاست، عداوت، ہوس، تشدد اور بربریت نے اس عورت کو اتنا کمزور اور بےبس بنا دیا ہے کہ وہ میری کہانی کا مرکزی کردار نہیں بننا چاہتی اور نہ میری کتاب میں اپنی تصویر کی رونمائی چاہتی ہے۔ میں اس مخمصے میں ہوں کہ اب اس کہانی میں کیا لکھوں اور میرے قلم میں اتنی طاقت بھی نہیں کہ لفظوں کے بغیر خاموشی کا اظہار کر سکے۔