کراچی میں پیر کو پولیس نے بلوچ یکجہتی کمیٹی (بی وائی سی) کی احتجاجی کال پر کراچی پریس کلب کے قریب جمع ہونے والے مظاہرین کو منتشر کرتے ہوئے چھ افراد کو حراست میں لے لیا۔
اس موقعے پر بی وائی سی کی رہنما سیمی بلوچ اور دیگر مظاہرین نے رکاوٹیں ہٹانے کی کوشش کی جس پر پولیس نے سیمی دین بلوچ سمیت متعدد مظاہرین کو گرفتار کر کے مختلف تھانوں میں منتقل کر دیا۔
ادھر بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ اختر مینگل نے وڈھ سے کوئٹہ تک لانگ مارچ کا اعلان کیا ہے۔ انہوں نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’ایکس‘ پر ایک بیان میں کہا کہ ’اس مارچ کی قیادت خود کروں گا، اور تمام بلوچ بھائیوں اور بہنوں، نوجوانوں اور بزرگوں کو دعوت دیتا ہوں کہ اس مارچ میں ہمارے ساتھ شامل ہوں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’یہ صرف ہماری بیٹیوں کی گرفتاری کا معاملہ نہیں، یہ ہمارے قومی وقار، ہماری غیرت، اور ہمارے وجود کا سوال ہے۔ جب تک ہماری ماہیں، بہنیں اور بیٹیاں محفوظ نہیں، ہم بھی خاموش نہیں رہیں گے۔‘
اختر مینگل نے کہا کہ ہماری یہ تحریک پرامن ہے اور ’جب تک انصاف نہیں ملتا، ہم رکیں گے نہیں۔ وڈھ سے کوئٹہ تک ہمارا مارچ صرف قدموں کا نہیں، ضمیر کا سفر ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے مزید کہا کہ پولیس نے اجتماع کو منتشر کر دیا اور سیمی بلوچ سمیت تقریباً چھ مظاہرین کو ضابطہ فوجداری کی دفعہ 144 کی خلاف ورزی پر گرفتار کر کے ویمن پولیس سٹیشن میں بند کرتے ہوئے ان کے خلاف پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 188 کے تحت ایف آئی آر درج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
جمعے کو کوئٹہ میں پولیس نے بلوچستان یونیورسٹی کے قریب سریاب روڈ پر اپنے رہنماؤں سمیت کچھ گرفتار افراد کے خلاف دھرنا دینے والے بی وائی سی کے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس، واٹر کینن اور ہوائی فائرنگ کا استعمال کیا تھا۔
بلوچستان حکومت کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا تھا کہ پولیس نے قانون کے مطابق سڑک کو کھلوانے کے لیے کارروائی کی۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ مظاہرین نے پولیس پر پتھراؤ کیا اور انہیں تشدد کا نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں ایک پولیس خاتون اہلکار سمیت 10 اہلکار زخمی ہو گئے۔
دوسری جانب بی وائی سی نے ایک بیان میں دعویٰ کیا تھا کہ پولیس فائرنگ کے نتیجے میں تین افراد مارے گئے جبکہ کئی دیگر زخمی ہوئے تھے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بلوچ یکجہتی لسبیلہ کی ذمہ دار فوزیہ بلوچ نے بتایا کہ ’ہم مظاہرے کے لیے پہنچے تھے لیکن راستے بند تھے۔ ہم پر امن احتجاج کرنا چاہتے تھے لیکن ہم پر تشدد کیا گیا، پولیس اہلکاروں نے ہماری عورتوں کو گھسیٹا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’سیمی دین اس وقت وومین تھانے میں ہیں، اگر انہیں رہا نہیں کیا گیا تو ہم سخت لائحہ عمل اختیار کریں گے۔‘