اگر موجودہ سیاسی حالات نے آپ کو غمگین اور دل شکستہ کر دیا ہے، اگر آپ کی طبیعت بوجھل اور کیفیت مایوسی کی طرف مائل ہے تو اعتراف حقیقت کیجیے، ضرور افاقہ ہو گا۔
قصور اس افسوس ناک تماشے کا نہیں جو چوبیس گھنٹے چلتا ہے، اور جس کو دیکھ کر آپ اب کُڑھ رہے ہیں، آپ کے جلنے بھننے اور شگفتگی سے بتدریج دوری کی وجہ یہ احمقانہ خیال ہے کہ اگر نا تجربہ کاری آڑے نہ آتی تو موجودہ حکومت اس سے کچھ بہتر کر سکتی تھی جو وہ کر رہی ہے۔
یا پھر یہ مفروضہ کہ اگر میڈیا کچھ لاج رکھ لیتا اور ناکامیایوں کی داستانیں ماضی کے حوالوں کے ساتھ اس بے باکی سے بیان نہ کرتا کہ ہر طرف تھوتھو ہونا معمول بن جائے۔ جب تک آپ ان غلط فہمیوں سے آزاد نہیں ہوں گے آپ کے عذاب باقی رہیں گے۔
آپ کو یہ ماننا ہو گا کہ جوطوائف الملوکی اس وقت آپ دیکھ رہے ہیں اس میں کوئی انہونی نہیں۔ یہ دراصل کرنی اور بھرنی کا گھومتا ہوا پہیہ ہے جو آپ نے اپنے ہاتھوں سے خود بنایا اور جو اب روزانہ آپ کے سکون کو روندتا ہوا آگے پیچھے ہو رہا ہے۔ آپ ان توقعات کے مارے ہوئے ہیں جو 2018 کے انتخابات سے کہیں پہلے ملک کے کونے کونے میں پھیلائی گئی ’مثبت رپورٹنگ‘ کے ذریعے تبدیلی کے نعرے اتنی مرتبہ دہرائے گئے کہ افسانوی اور رومانوی ہوائی قلعے آپ کو خود بھی سچے لگنے لگے۔
آپ نے خود کو اس فریب میں مبتلا کر دیا کہ اس ملک کی ناؤ بس ایک جھٹکے میں تصوراتی گردابوں سے نکل کر ان دیکھے مگر پر سکون ساحلوں پر جا ٹکے گی اور پاکستان ایک ایسا جزیرہ بن جائے گا جہاں بد عنوانی، گرانی اور طاقتوروں کی من مانی بے گور دفنا دی جائے گی، ہر طرف چین ہو گا، آرام کا راج ہو گا، خوشی گھر کی باندی ہو گی، مشکور رعایا یک آواز ترانے گائے گی ’یہ تیرا پاکستان ہے۔ یہ میرا پاکستان ہے۔ اس کا ایک کپتان ہے جس کا اب ہمیشہ کے لیے پاکستان ہے۔‘
آپ کا یقین اس تیسرے درجے کے فلمی سکرپٹ پر کچھ اتنا بڑھ گیا تھا کہ آپ سامنے سے آتی ہوئی لڑ کھڑاتی مال گاڑی کو خوشخبری اور ٹرک کی بتی کو امید کی کرن سمجھنے لگے۔ جس نے آپ کو ہوش کے ناخن لینے کو کہا، آپ نے اسے کاٹ کھایا۔ بعض کے سر پر لٹھ رسید کیا، اور بعض کو ملک دشمنی کی رسید میں لپٹ کر مُنی سے بھی زیادہ بدنام کر دیا۔
آپ نے خود کو جھوٹ کے حصار میں قید کیا۔ اپنے ارد گرد ایسا ماحول ترتیب دیا کہ حقائق اس سے ٹکرا کر پاش پاش ہونے لگے، آپ نے سراب کو کباب اور اس میں موجود ہڈی کو نوٹوں کی گڈی جانا۔ وہ نوٹ جو ڈالروں کی صورت میں برسنے کو بس تیار تھے، صرف انتخابات کے نتائج آنے اور نواز شریف اور آصف علی زرداری کے جیل جانے کی دیر تھی۔
پھر جو ہوا وہ ہونا ہی تھا، پکڑ دھکڑ، جکڑ اور مکر سے بنائے گئے اس تجرباتی نظام کی کوکھ سے ناامیدی کی ایک لمبی قطار نے ہی جنم لینا تھا۔ جس دن بزدار پنجاب، جام بلوچستان اور محمود خان کے پی کے میں آئے تو آپ کو سمجھ لینا چاہیے تھا کہ آپ کے ارمانوں کو خون ہونا ٹھہر گیا ہے، مگر آپ نے پھر بھی طفل تسلی کی چادر اوڑھے رکھی اور اس میں روزانہ ہونے والے چھیدوں میں سے جھانک جھانک کر نیا پاکستان تلاش کرنے سے باز نہ آئے۔
آپ چپکے چپکے یہ سوچتے رہے کہ اسد عمر معیشیت سیکھ جائے گا، فواد چوہدری باتمیز اور مراد سعید باادب ہو جائے گا، پرویز خٹک دفاع کی اہمیت جان لے گا اور قریشی مقامی سیاست میں گھسنے کے بجائے خارجہ امور کو نئی سمت دے گا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ کپتان سائیکل پر سوار ہو کر عام سے وزیر اعظم ہاؤس میں جایا کرے گا اور زمین پر آلتی پالتی مارے مزدوروں کی طرح کام کرے گا، بشریٰ بیگم قوم کو دین پڑھائیں گی، علما، فقہا، فلسفی و تجزیہ نگار منہ پھاڑے دنگ رہ جائیں گے، سب کہیں گے، ’واہ واہ کیا بات ہے آپ کی!‘
آپ خود کو دھوکہ دینے میں ڈبل شاہ سے بھی آگے نکل گئے، آپ بھیک میں مانگے قرضے کو معاشی بہار کہتے رہے۔ آپ مصر رہے کہ شاید ’روشنی کی رفتار سے تیز چلنے والی ٹرین‘ حقیقت ہے۔ آپ نے جرمنی اور جاپان کی سرحدوں کو ملتا ہوا دیکھا، ایران میں پاکستان سے دہشت گردی کا اعتراف سنا اور امریکہ کے ٹھڈوں اور آئی ایم ایف کے دھکوں میں عظمت کی داستانیں تلاش کیں۔
اور اب جب گیس اور بجلی کے بلوں، گھٹتی نوکریوں، بڑھتی مہنگائی، بند ہوتے ہوئے کاروبار اورسنجیدہ معاملات پر بچگانہ پن نے آپ کی طبیعت کچھ صاف کی ہے، اور آپ کو حماقتوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر پوری وسعت میں نظر آنا شروع ہو گیا ہے تو بوجھل پن تو طاری ہو گا۔ سر میں خاک ڈالنے کا دل تو کرے گا۔ بہر حال آپ اس تاسف سے حالات کو نہیں بدل پائیں گے۔ ہاتھوں سے لگائی ہوئی گرہیں دانتوں سے کھولنا پڑتی ہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ آپ اپنی غلطی تسلیم کر کے اندر کا سکون حاصل کر سکتے ہیں۔
جس گھٹن نے آپ کی سانسیں پھلا دی ہیں اس میں کمی ممکن ہے۔ اس حکومت کے بارے میں توقعات بدلنے میں اس کا انداز تو نہیں بدلے گا مگرآپ روزانہ کی اس جھنجھلاہٹ سے نکل پائیں گے کہ یہ نظام ویسے کیوں نہیں چل پا رہا جیسے سوچا گیا تھا۔ آپ یہ سمجھ لیں گے کہ ریگ مال سے گیند کو چھیل کر بلے بازوں کو آؤٹ کرنا اور انتخابات کے نتائج تبدیل کرنا برابر ہے۔
صرف ایک فرق ہے۔ کیمروں کی عدم موجودگی میں چھلی ہوئی گیند کے کارنامے بڑی شہرت کی بنیاد بن سکتے ہیں مگر انتخابی ہیرا پھیری کے نتائج چھپائے نہیں چھپتے۔ کپتان اگر اپنے بیان، دھیان،گیان اور عمل میں ناکامی کی تصویر ہے تو ٹوپی تبدیل کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اگر اس کے کھلاڑی ریلو کٹے ہیں تو ٹیکنو کریٹس مستعار لینے ہی ہوں گے۔ کپتان جب بار بار چیف سیلیکٹر کا دامن پکڑے تو یہ واضح ہو جانا چاہیے کہ حالات کیا رخ اختیار کررہے ہیں۔
یہ خدشہ بہر حال موجود ہے کہ آپ ابھی بھی نہ سمجھیں، اور اپنا اصرار برقرار رکھیں کہ بگڑی بن جائے گی، وزرا کے ردو بدل کی ملمع کاری کچھ عزت بچا لے گی۔ اگر آپ واقعتاً اس فریب سے نجات حاصل نہیں کرنا چاہتے تو ہمیں یہ کہنا پڑے گا کہ آپ کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہ عین انصاف ہے، آپ کا مرض دائمی ہے، آپ کی سیاسی تجربے کرنے کی رگ پھڑکتی رہے گی، یہ قوم یونہی اٹکتی رہے گی، اگر یوں ہے تو پھر لگیں رہیں۔ بجاتے رہیں ڈگڈگی، نچاتے رہیں بندر، جلاتے رہیں اپنا اور قوم کا خون۔