دکھانے کو دل کے داغ بہت ہیں مگر کیا کریں کہ بقول فیض صاحب جبر اور اختیار کے موسم میں، طوق و دار کے موسم میں، بہار و انتظار کے موسم میں، حسن نگار اور غم روزگار کے موسم میں، دل کہیں سے امید کی کوئی خبر تو لائے؟
یوں بھی عالمی افق پر غزہ اور فلسطینیوں پر بڑھتے مظالم، اسرائیل کے سفاک منصوبوں کا تسلسل، تجارتی محاذ آرائی اور ڈونلڈ ٹرمپ کی چھیڑ خانی، مملکت پاکستان میں دہشت گردی، انتہاپسندی، افراتفری، تقسیم، تفریق، نفرت پر مبنی بیانیوں سے نظریں چرانے اور سب بھول جانے کو دل کرتا ہے مگر کیا کریں، ستم ہے نگاہِ بہار میں بھی خزاں کا موسم اور دلِ خوش کن پہ بھی سامان اضطراب و غم طاری ہے۔ یوں کہیے کہ پرانے حساب جاری ہیں، نئے عذاب جاری ہیں۔
سیاسی افق پر سندھ دریا پر نہروں کا معاملہ ہو یا بلوچستان میں مسلسل ارتعاش، خیبر پختونخوا میں جاری دہشت گردی کا تسلسل بلکہ اس میں آنے والی ’جدت‘ نئے معاملات نہیں مگر سنگین تر ضرور ہو رہے ہیں۔ یہ بات کہنا اور لکھنا ضروری ہے کہ اس وقت سیاست کے علاوہ سب کچھ ہو رہا ہے۔ معیشت، سیاست پر حاوی نظر آتی ہے، ریاستیں مضبوط اور آمرانہ طرز حکمرانی یعنی authoritarianism رائج نظر آتا ہے۔ پاکستان جس خطے میں ہے اس کے گردو نواح میں سخت گیر طرز حکمرانی رائج ہے۔ کہنے کو انڈیا میں جمہوریت ہے لیکن جمہوریت کے رائج اصولوں کا اطلاق وہاں بھی ناپید ہی نظر آتا ہے۔
دنیا بھر میں محدود جمہوریت کا نظریہ رائج ہوتا چلا جا رہا ہے، ایسے میں پاکستان اس سے محفوظ کیسے رہے گا۔ ہم مستقل تجربہ گاہ کی صورت مختلف نظام آزماتے رہے ہیں۔ سوائے مکمل جمہوریت اور سویلین بالادستی کے ہم نے ہر طرز حکمرانی اختیار کیا ہے۔ بہر حال ہائبرڈ اور ہائبرڈ پلس سے گزرتے ہوئے ہم وہیں آ کھڑے ہیں جہاں آمریت اور سماجی فسطائیت روبرو ہیں اور اپنا ہی جملہ دہرائے دیتی ہوں کہ ’بدقسمتی سے اس دوراہے پر ہیں جہاں آمریت اور فسطائیت میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہے،‘ مگرہم جیسے پھر بھی جمہوریت کے لیے ہی آواز اٹھائیں گے۔
ریاست کو معیشت کی فکر ہے جبکہ معاشیات کو انتہائی خوبصورتی سے سیاسیات سے الگ کر دیا گیا ہے۔ سیاسی مکالمے کی گنجائش آہستہ آہستہ ختم کر دی گئی ہے، یہی وجہ ہے کہ نواز شریف اور آصف علی زرداری جیسے نبض شناس سیاست دان وقت کی خاموشی کو سن رہے ہیں۔ زرداری صاحب صحت کے مسائل سے دوچار ہیں اور نواز شریف خاموش رہنے کی افادیت سے مستفید۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
گزرتے ہر لمحے میں بگڑی ہر چیز کو دھارے میں لانے کے منتظر اور ’بگاڑنے والے خود ہی نمٹیں‘ پر اکتفا کیے سیاست دان دھیرے دھیرے اقتدار اور اختیار کے دھاگے کو ہاتھ سے نکال رہے ہیں۔
درست وقت کے انتظار میں یہ مصلحت حاوی ہے کہ ’پراجیکٹ وائنڈ اپ‘ ہو اور آگے بڑھا جائے۔ یہ بھی کہ تب تک شہباز شریف معاشی اشاریے بہتر کر لیں اور مریم نواز پنجاب میں ترقی اور کارکردگی کے جھنڈے گاڑھ لیں۔
زرداری صاحب آگے کی سوچ رکھتے ہیں لیکن وفاق کی جانب سے نہروں کے معاملے نے پیپلز پارٹی کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔ ایک طرف سیاست اور دوسری طرف ریاست اور اس کے بیچ میں کھڑی پیپلز پارٹی۔
بلاول بھٹو کی چار اپریل کی دانشمندانہ تقریر کیا سندھ کے جذبات کو ٹھنڈا کر پائے گی؟ پیپلز پارٹی دو دھاری تلوار پر چل رہی ہے اور اپنے حلقے کے عوام کو مسلسل وضاحتیں دیتی نظر آ رہی ہے۔ پیپلز پارٹی وقت آنے پر سیاست کو ترجیح دے گئی اور اس کا ادراک شاید مقتدرہ کو بھی ہے۔ آنے والے دنوں میں مقتدرہ پیچھے ہٹ گئی تو معاملہ پیپلز پارٹی کے حق میں جائے گا ورنہ ریاست میں تقسیم مزید گہری ہونے کا خدشہ موجود ہے۔
رہ گئی بات تحریک انصاف کی تو سارے کارڈز کی ناکامی کے بعد عمران خان اب خود ’مفاہمتی کارڈ‘ کے استعمال کے لیے تیار ہیں اور رہائی کے لیے ہر طور کوشاں ہیں مگر تحریک انصاف کی طاقت یعنی سوشل میڈیا ہی اس کی کمزروی بن چکی ہے۔
احتجاجی سیاست ہو یا انتقامی، اب مشن امریکہ سے لے کر مشن علی امین گنڈا پور تک صرف مفاہمت کی کوششیں ہی جاری ہیں، ممکن ہے کہ ریاست کے بدلتے ہوئے کردار میں بات چیت کے دروازے کھل جائیں تاہم ’صدق دل سے معافی‘ کا بیانیہ بدلنے کا امکان نظر نہیں آ رہا۔ جب سیاست کے تقاضے ہی نہیں رہے تو اب سیاست کہاں؟
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔