جمہوری ممالک میں حکومت اور حزب اختلاف ایک گاڑی کے دو پہیے تصور کیے جاتے ہیں۔ آج کی حزب اختلاف کل کی حکومت ہوسکتی ہے اور ان دونوں پہیوں نے مل کر ملک کو آگے بڑھانا ہوتا ہے۔
پاکستان میں عمران خان کے وزیر اعظم بننے کے بعد حزب اختلاف میں ہونا ایک جرم سا بن گیا ہے۔ جن پر ان کی نظر کرم ہے یا ان کے ساتھ شامل کر دیے گئے ہیں ان پر سات خون معاف لیکن اگر آپ حزب اختلاف میں ہیں تو آپ کی طبیعت بظاہر صاف کرنے کے لیے نیب، نیب عدالتیں، ایف آئی اے اور دیگر تفتیشی ادارے موجود ہیں۔
اس تحریر کو مصنف کی آواز میں آپ یہاں سن بھی سکتے ہیں
اس غیرجمہوری اور منتقمانہ رویے کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ کیوں پاکستان اور انگلستان کی مشہور درس گاہوں سے فارغ التحصیل رہنما اس طرح کا غیرجمہوری، غیرروادارانہ اور جنگجوانہ طرز عمل اختیار کیے ہوئے ہیں؟
مغرب میں زندگی گزارنے اور وہاں کی جمہوریت کو قریب سے دیکھنے والا اور اس کی ہر وقت تعریفیں کرنے والا رہنما کیسے کہہ سکتا ہے کہ حزب اختلاف استعفیٰ دے دے تو یہ ملک کے لیے اچھا ہوگا۔ وہ کیسے وزیراعظم ہوتے ہوئے ایک جھگڑالو شخص کی طرح قومی ٹیلی ویژن پر منہ پر ہاتھ پھیر کر حزب اختلاف کو سبق سکھانے کی دھمکیاں دے سکتے ہیں؟ یہ تکبر اور منتقمانہ خصوصیات ایک کھلاڑی میں کیسے آسکتی ہیں اور خاص طور پر اس کھیل کا کھلاڑی جسے شرفا کا کھیل کہا جاتا ہے؟ سپورٹس مین سپرٹ اس رہنما میں کیوں نہیں اور کیا اس سپرٹ کا کوئی وجود بھی ہے یا اس کا ذکر صرف زیب داستان کے لیے کیا جاتا ہے۔
ہمارے وزیر اعظم کی شخصیت کے اس پہلو کو سمجھنے کے لیے ہمیں کھیل کی دنیا کے افسانوں کی بنیاد پر نہیں بلکہ میدان میں مروجہ اصلی اصولوں اور روایات سے استفادہ حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ گو تمام کھیل ایک عام تصور کے مطابق دوستانہ ماحول میں کھیلے جاتے ہیں مگر مقابلے والے کھیلوں کی ثقافت انتہائی مختلف ہے۔ یہاں پر صرف جیت کا دور دورہ ہے اور جیتنے کے لیے ہر قسم کے حربے استعمال کیے جاتے ہیں اور اس میں کسی قسم کی شرمندگی محسوس نہیں کی جاتی۔
باکسنگ میں ایک کھلاڑی کا اپنے حریف کو زمین پر گرانا ضروری ہے۔ اس میں اسے شدید جسمانی تکلیف سے دوچار کرنا کھیل کا اہم جز ہے۔ اسی طرح دوسرے کھیلوں میں بھی آپ کا اپنے مخالف پر حاوی رہنا ضروری ہے۔ مقابلے کے کھیلوں میں بقائے باہمی کا کوئی تصور نہیں۔ آپ اپنے مخالف کو چاروں شانے چت کر کے ہی کامیاب قرار دیئے جاتے ہیں۔ اس مکمل فتح کو حاصل کرنے کے لیے جس میں آپ کا مقابل بےبس ہو جائے ہر طرح کے طریقے آزمائے جاتے ہیں۔ کرکٹ میں مخالف کی مشکلات میں اضافہ کرنے کے لیے باؤلرز عموماً بال ٹیمپرنگ کے قصور وار رہے ہیں۔ بال ٹیمپرنگ کےخلاف اصول اب زیادہ سخت ہوگئے ہیں مگر ابھی بھی کھلاڑی فتح کی تلاش میں اس حرکت سے باز نہیں آتے۔
اسی طرح ہمارے وزیر اعظم کا بھی ہر تیز رفتار بولر کی طرح ہدف مخالف کی وکٹ اڑانا ہوتا ہے۔ اس کے لیے مختلف طریقے استعمال کیے جاتے ہیں جن میں بال ٹیمپرنگ کے علاوہ باؤنسر اور شارٹ پچ بال بھی شامل ہوتے ہیں۔ ان کا مقصد اپنے حریف کو خوف میں مبتلا کر کے اسے غلطی پر مجبور کرنا ہوتا ہے یا اسے جسمانی نقصان بھی پہنچانا ہوتا ہے۔ لیکن اگر یہی حربے ان کے خلاف استعمال ہوں تو دھاندلی کی بات بھی کی جاتی ہے۔
کھیلوں اور خصوصاً کرکٹ کی سمجھ بوجھ رکھنے والی ایک شخصیت، جن کا پاکستان کرکٹ کے ساتھ گہرا رشتہ رہا ہے، کے مطابق کرکٹ میں حقیقتاً مخالف ٹیم کو دشمن سمجھا جاتا ہے اور کچھ حد تک اس سے نفرت بھی کی جاتی ہے۔ انہوں نے پاکستانی کرکٹ ٹیم کے ساتھ اپنے ذاتی تجربے کی بنیاد پر بتایا کہ ایک بیرون ملک ٹیم کی پاکستان آمد کے موقع پر جب وہ انتظامات کی نگرانی کر رہے تھے تو ہماری ٹیم کے اس وقت کے کپتان نے مخالف ٹیم کو منرل پانی دینے پر اعتراض کیا اور کہا کہ یہ تو درختوں پر رہتے ہیں انہیں منرل پانی دینے کی کیا ضرورت ہے۔
اپنی دشمنی اور نفرت کا اظہار کرتے ہوئے اس کپتان نے مخالف ٹیم کے ڈریسنگ روم میں جا کر انہیں خوش آمدید کہنے سے بھی انکار کر دیا اور کہا کہ ’میں ان پر لعنت بھیجتا ہوں۔‘ یہ رویہ صرف کپتان تک محدود نہیں تھا بلکہ تمام کھلاڑیوں کی سوچ اسی طرح کی تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ہمارے وزیر اعظم نے کرکٹ میں ذہنی تشکیل دینے والی عمر اس قسم کے مقابلے کے ماحول میں گزاری جس میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے آپ کو مخالف کو مکمل طور پر زیر کرنا ضروری ہوتا ہے اور قدرتی طور پر یہی سوچ انہوں نے سیاست میں اپنائی۔
اپنے مخالفین کو برا بھلا کہنا شاید انہوں نے آسٹریلوی میدانوں میں سیکھا جہاں مخالف ٹیم کو میدان میں جارحانہ بولنگ کے علاوہ جارحانہ کلمات، جن میں غلیظ گالیاں شامل ہوتی تھیں، سے زچ کیا جاتا ہے۔ اسی تربیت کی وجہ سے وزیر اعظم بننے سے پہلے بھی وہ یہی کرتے تھے اور وزیر اعظم بننے کے بعد بھی ان کی پوری کوشش ہے کہ سیاسی مخالفوں کا زبان اور عمل سے قلع قمع کیا جائے۔
اس میں وہ ایک تیز رفتار بولر کی طرح ہر طرح کے قانونی یا غیر قانونی حربے استعمال کرنے کو جائز سمجھتے ہیں۔ ایف آئی اے کے سابق سربراہ بشیر میمن کے انکشافات اس بات کی واضح دلیل ہیں۔ اگر مخالفین کو زیر کرنے کے لیے غداری جیسے الزامات بھی لگائے جائیں تو وہ ان سے بھی گریز نہیں کرتے۔ انہیں مخالفین سے اتنی شدید نفرت ہے کہ وہ انہیں بددعائیں دینے سے بھی باز نہیں آتے۔
کیونکہ وزیر اعظم کی ذہنی نشونما اسی جارحانہ اور جنگجوانہ ماحول میں ہوئی ہے تو ان کے مخالفوں کے خلاف اقدامات پر کسی تعجب کی ضرورت نہیں۔ ان کی تربیت ہی اپنے مخالفین کی مکمل تباہی کے تصور پر مبنی ہے تو ان سے حکومت کے مخالفین کے ساتھ کسی قسم کی رواداری اور برداشت کی توقع کرنا ایک سعی لاحاصل ہے۔ انہوں نے ہر چیلنج کا مقابلہ باؤنسر سے کرنا ہے چاہے وہ بنی گالہ میں احتجاج کرتے ہوئے اساتذہ ہوں، ڈی چوک میں احتجاج کرنے والے ہیلتھ ورکرز اور سرکاری ملازمین یا مخالف سیاست دان۔
وزیراعظم کو احساس کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ اس وقت کوئی کھیل نہیں کھیل رہے جس میں انہوں نے ہر حال میں مخالفین کو شکست فاش دینی ہے یا انہیں نیست و نابود کرنا ہے۔ وہ ایک جمہوری ملک کے وزیر اعظم ہیں جس میں جمہوری قدروں اور قانون کی پابندی ضروری ہے۔
ملک چلانا ایک کھیل نہیں ہے اور ہمارے وزیراعظم کو جتنی جلدی اس کی سمجھ آ جائے تو ملک کے لیے بہتر ہوگا۔ لیکن افسوس کہ ایک مسابقتی ذہن رکھنے والے کھلاڑی کی حیثیت سے ان کی ذہنی تربیت انہیں اس راستے پر چلنے سے روکتی رہے گی، جو ملک کے لیے شدید مسائل پیدا کر سکتی ہے اور اسے ایک فسطائی ریاست میں تبدیل کر سکتی ہے۔