بچپن میں عمران سیریز کے ناول پڑھتے ہوئے ہمیں یہ اندازہ ہرگز نہیں تھا کہ ایک دن ہمارے پسندیدہ ہیرو سیکرٹ سروس کے چیف علی عمران، عمران خان کے روپ میں مملکتِ خداداد کے ’چیف ایگزیکٹو‘ بن جائیں گے۔
بچپن کے پسندیدہ ہیرو کو پچاس پچپن کے پیٹے سے پہلے ہی حقیقت میں دیکھ لینا کسی معجزے سے کم نہیں۔ سو ہماری خوشی میں آپ کا شریک ہونا محال است و محال است و جنوں کے سوا کچھ بھی نہیں۔
ہمارے بچپن اور پچپن میں اس کے سوا اور کوئی مماثلت نہیں کہ بچپن میں ہمارے تصوراتی ہیرو علی عمران تھے اور آج عمران خان ہیں۔
جو لوگ علی عمران سے ابن صفی کے توسط سے مل چکے ہیں وہ بخوبی جانتے ہیں کہ وہ ایک ایسا کھلنڈرا اور شریر انسان بن کر ابھرا تھا جسے اپنے ملک سے شدید محبت تھی اور وہ اس کے خلاف کسی بھی قسم کی سازش برداشت نہیں کر سکتا تھا۔
عمران خان کے کھلنڈرے پن سے تو ریحام خان یا عائشہ گلالئی ہی انکار کر سکتی ہیں لیکن جہاں تک شریرہونے کا سوال ہے تو آپ جانتے ہیں کہ یہ ان محدودے چند لفظوں میں سے ایک ہے جن کے مفہوم میں ’دوہرا پن‘ پایا جاتا ہے۔ یعنی اردو میں اس لفظ کی جڑیں ایک طرف عربی میں پیوست ہیں تو دوسری طرف سنسکرت میں اور دونوں زبانوں میں اس کے مفہوم میں اس سے کہیں زیادہ تفاوت پایا جاتا ہے جتنا ملا اور مجاہد کی اذاں میں۔
ایسی صورت میں عمران خان جیسے ’صاف گو‘ شخص کی آتما اور’شریر‘ کسی ایسے لفظ کو کیسے قبول کر سکتے ہیں جس کے مفہوم میں بعض سیاسی خاندانوں کی طرح دوہرا پن یا منافقانہ رویہ پایا جاتا ہو۔ علاوہ ازیں بعض ’ستم شریف‘ اسے شریف خاندان کی قبیل کا کوئی لفظ بھی سمجھ سکتے ہیں جس سے خان صاحب کی حب الوطنی شکوک و شبہات کا شکار ہو سکتی ہے۔ حالاں کہ اسی حب الوطنی کے جذبے کے تحت انھوں نے ملک کے خلاف سازش کرنے والی دو بڑی جماعتوں، ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے خلاف جہاد کا علم بلند کیا اور ان کے ساتھ انہیں مجبوراً وہی سلوک کرنا پڑا جو علی عمران نے اس ملک کے دشمنوں کے ساتھ کیا تھا۔
علی عمران نے آکسفورڈ یونیورسٹی میں اپنی تعلیم حاصل کی تھی، لیکن ہمارے خان صاحب اس سے بھی ’ایک ہاتھ‘ آگے نکلے۔ انہوں نے نہ صرف آکسفورڈ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی بلکہ اسی یونیورسٹی کی کرکٹ ٹیم کے کپتان بھی رہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
علی عمران لندن میں کرمنالوجی کی طرف مائل ہوئے اور ہمارے عمران جمائما خان کی طرف۔ علی عمران کی خودسری نے اسے اپنے والد سے علیحدگی پر مجبور کیا اور عمران خان کی مصروفیات نے انہیں اپنی بیوی بلکہ بیویوں سے۔
سیکرٹ سروس میں خدمات سر انجام دینے کے صلے میں سر سلطان نے علی عمران کو سیکرٹ سروس کا چیف مقرر کیا جب کہ ہمارے ’سر عوام‘ نے انہیں ان کی سماجی خدمات کے صلے میں پاکستان کا چیف ایگزیکٹو ’مقرر‘ کیا۔ علی عمران اپنی لاابالی طبیعت سے واقف تھا اسی لیے اس نے ’ایکس ٹو‘ کا عہدہ تخلیق کیا تاکہ اس کا عملہ اس سے ڈرتا رہے۔ عمران خان بھی اپنی لاابالی طبیعت سے واقف ہیں اس لیے انہوں نے اپنی پہلی دونوں بیویوں کو ایکس وائف میں بدل دیا تاکہ خواتین ان پر بدستور مرتی رہیں۔
علی عمران نہ صرف مارشل آرٹ اورجمناسٹک کا ماہر تھا بلکہ میک اپ کا بھی ماہر تھا۔ عمران خان نے نہ صرف کرکٹ کے میدان میں پاکستان کا نام روشن کیا بلکہ اب اس کا نام ’تاریکیوں‘ میں دھکیلنے کے لیے میدان سیاست میں بھی سرگرم عمل ہیں۔ میک اپ کا گر سیکھنے کی ضرورت انہیں اس لیے پیش نہیں آئی کہ وہ صورت سے زیادہ سیرت پر یقین رکھنے والے انسان ہیں۔
جب سے ان کا پالا ریحام خان اور عائشہ گلالئی جیسی خواتین سے پڑا ہے، خوبصورتی سے ان کا ایمان ہی اٹھ گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے بشریٰ بی بی کو خاتون اول اور بیگمِ آخر کے طور پر چنا ہے، جو کبھی چلمن سے باہر ہی نہیں آئیں۔
خاتون اول اور بیگمِ آخر کا کردار عمران سیریز کے سید چراغ شاہ سے ملتا جلتا ہے جو ہر مشکل وقت میں علی عمران کی روحانی مدد کرتا تھا اور انہیں دشمنوں کے سفلی حملوں سے بچاتا تھا۔ ان دونوں میں ایک اور معنی خیز مماثلت بھی ہے کہ چراغ شاہ علی عمران کی زندگی میں بہت بعد (مظہر کلیم کے لکھے ہوئے عمران سیریز کے ناولوں) میں داخل ہوا تھا۔ خاتون اول بھی عمران خان کی روحانی مدد کے لیے بہت بعد میں، یعنی اس وقت وارد ہوئیں اور ان کی روحانی مدد کے کرشمے سب کے سامنے ہیں۔
علی عمران نے مارشل آرٹ میں کئی نئے داؤ ایجاد کیے تھے۔ عمران خان نے سیاست میں یو ٹرن نامی ایک ایسا داؤ ایجاد کیا، جس کی نظیر آس پاس کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ اس عظیم داؤ کے بورڈ پاکستان کی ہر ’دوہری‘ سڑک پر موجود ہیں، جس سے اس کی عوامی سطح پر مقبولیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
عمران سیریز میں علی عمران کے بعد سب سے اہم کردار طاہر عرف بلیک زیرو تھا، جو سیکرٹ سروس کا واحد رکن تھا اور یہ جانتا تھا کہ علی عمران ہی ایکس ٹو ہے۔ طاہر سے پہلے ابن صفی نے ایک بلیک زیرو عمران سیریز کے ایک یادگار سلسلے ’درندوں کی بستی‘ سیریز میں متعارف کرایا تھا جو وطن کی خاطر شہید ہو جاتا ہے، اس سے اگلے ہی ناول ’گمشدہ شہزادی‘ میں ابن صفی صاحب نے نیا بلیک زیرو ’طاہر‘ متعارف کروایا جسے بے حد مقبولیت ملی اور اگلے ناولوں میں یہی بلیک زیرو طاہر ہی رہا۔
تحریک انصاف سیریز لکھنے والوں نے بھی اس کردار پر خصوصی توجہ دی۔ جوں ہی ن لیگ نامی ’درندوں کی بستی‘ اجڑی بلیک زیرو بننے کے کئی دعویداروں نے سر اٹھایا لیکن ’گمشدہ شہزادی‘ نے عثمان بزدار نامی ایک ایسا بلیک زیرو متعارف کرایا کہ اس نے ’قبولیت‘ کے اگلے پچھلے سارے ہی ریکارڈ توڑ دیے۔
بلیک زیرو کے بعد اس سیریز کا سب سے اہم کردار صفدر سعید ہے، جو سیکرٹ سروس کا سب سے زیادہ فعال رکن ہے اور علی عمران جب فیلڈ میں ہوتا ہے تو سب سے زیادہ اعتماد اسی پر کرتا ہے۔ صفدر سعید ایک کم گو انسان ہے اور عموماً سنجیدہ رہتا ہے۔ صفدر سعید علی عمران کی دل سے عزت کرتا ہے اوراسے ہمیشہ ’عمران صاحب‘ کہہ کر پکارتا ہے۔ عمران بھی صفدر کی عزت کرتا ہے۔
ہم نے عمران سریز کے باقی کرداروں کا ذکر کرتے ہوئے ماضی کا صیغہ استعمال کیا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ صفدر سعید کا ذکر بھی اسی صیغے میں کرتے لیکن اس کردار کا ذکر کرتے ہوئے ہم نے ماضی کا صیغہ اس لیے استعمال نہیں کیا کہ تحریک انصاف سیریز کا صفدر سعید چینی اور آٹے بحران کے باعث خود ہی ماضی کا صیغہ بن چکا ہے۔
وہ نہ تو اب کم گو انسان رہا ہے نہ ہی ہمارے ہیرو کی اب عزت کرتا ہے۔ البتہ ہمارا موجودہ ہیرو اب بھی اس کی عزت کرتا ہے جو اس کی اعلیٰ ظرفی پر دال ہے۔
جہاں تک دونوں سیریز میں فوجی کرداروں کی بھرمار کا تعلق ہے تو شاید یہ محض اتفاق ہے اور ایسے اتفاقات اس کائنات میں وقوع پذیر ہوتے ہی رہتے ہیں۔
عمران سیریز کے اصلی ناولوں کی مجموعی تعداد ان سیٹوں کی تعداد سے کچھ زیادہ نہیں جتنی تحریک انصاف سیریز کو گذشتہ الیکشن میں ملی تھیں۔ عمران سیریز کے ناولوں کی تعداد 120 کے لگ بھگ ہے جب کہ تحریک انصاف نے 116 نشستیں حاصل کی تھیں۔
البتہ اس کے کرداروں پر بعد میں لکھے جانے والے ناولوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے جتنے ووٹ عمران خان نے وزیراعظم کے انتخاب میں قومی اسمبلی میں لیے تھے۔
عمران سیریز کا پہلا ناول اگست 1955 میں منظر عام پر آیا تھا۔ عمران خان 1952 میں پیدا ہوئے۔ یہی نہیں بلکہ تحریک انصاف سیریز کی پہلی مرکزی حکومت بھی اگست کے مہینے میں قائم ہوئی۔ اب اس پر سوائے اس کے کیا کہا جا سکتا ہے۔
سلسلۂ روز شب نقش گرِ اتفاق