دسمبر کی 22 تاریخ تھی اور پی ایم ایل این کے رہنما جو سابق وزیر بھی رہ چکے ہیں خرم دستگیر صاحب، وہ ہمارے پروگرام میں آئے۔
انہوں نے اپنی گفتگو میں یہ فرمایا کہ اگر وزیر اعظم عمران خان کسی شرائط کے بغیر ایک صاف دل سے پی ایم ایل این کے لوگوں کو، اپوزیشن کو ڈائیلاگ کی دعوت دیں تو ممکن ہے کہ دعوت قبول ہو جائے۔
انہوں نے کہا کہ یہ کہہ کے تو دیکھیں، یہ کر کے تو دیکھیں، یہ بھی ضرور کہا انہوں نے کہ میں پی ڈی ایم کے حوالے سے بات نہیں کر سکتا، البتہ یہ ضرور ہے کہ یہ ممکن ہوسکتا ہے اور یہ کہ پی ڈی ایم خود اپنی پوزیشن واضح کرے گی، پرائم منسٹر ایسا کوئی قدم اٹھائیں۔
اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی خبریں اب سامنے آ رہی ہیں کہ پیپلز پارٹی استعفے دینے کے حق میں نہیں ہے۔
پی ایم ایل این میں بھی شاید کچھ مختلف آرا پائی جاتی ہیں اور بہر حال کچھ یہ حیران کن بات نہیں ہے اور نہ ہی کوئی بہت بڑی تفریق کا پیش خیمہ ہے۔
یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ اس کے نتیجے میں پی ڈی ایم ختم ہو جائے گی یا پی ڈی ایم میں بہت دراڑیں پڑ جائے گی اب البتہ یہ ضرور ہے کہ پی ڈی ایم میں مختلف آرا پائی جاتی ہیں استعفے کے حوالےسے، اور ڈائیلاگ کے حوالے سے۔
اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھا جا رہاہے کہ مولانا فضل الرحمن کی پارٹی جے یو آئی یقینا ایک تفریق کا شکارہے۔ اس میں جب سے مولانا فضل الرحمن کی حوالے سے نیب نےکچھ تفتیش شروع کی، انکوائری شروع کی، اس کے بعد پارٹی کے اندر توڑپھوڑ ہوگئی۔
مولانا شیرانی جوکہ جے یو آئی کے سینئیر ممبر تھے انہوں نے کھل کر مولانا فضل الرحمن صاحب کے خلاف بات کی اور پھر اور دو لیڈربھی ابھر آئے مولانا صاحب کے خلاف، اور پھر مرکزی جماعت ہے، مرکزی کمیٹی ہے، اس نےکچھ لوگوں کو پارٹی سے نکال دیا ہے جس میں مولانا شیرانی بھی ہیں، توڑ پھوڑ کا کچھ سلسلہ شروع ہوا ہے، یقینا اس میں مقتدر حلقوں کا کوئی نہ کوئی رول ضرور ہو گا۔
جے یو آئی کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کا شاید رول ہے یا پھر کچھ اداروں کا رول ہے، سوال تو یہ ہےرول جس کا بھی ہو اگر سوال اٹھے گا ذرائع آمدنی پہ اور وسائل پہ، نیب کی طرف سے تو سوال جائز ہے بھی اور نہیں بھی ہے۔
سوال اس لیےجائز ہے کیونکہ پاکستان میں لاتعداد ایسے لوگ ہیں کہ جن کا تعلق رولنگ الیٹ سے ہے۔ چاہے وہ سیاسی ہو یا غیر سیاسی ہو۔ چاہے وہ الیکٹڈ پولیٹیشنز ہوں یا آمریت سے ان کا تعلق رہا ہو آمرانہ دور سے۔
بہت سےلوگ ہیں جنہوں نے خوب دولت جمع کی ہے پاکستان میں، دیکھتےدیکھتے ہی لوگ کہاں سے کہاں پہنچ گئے ہیں دولت کےانبار لگائے، توظاہر ہے سوال اٹھتے ہیں۔ وہ اور بات ہےکہ پاکستان میں جس طریقے سےدولت جمع کرنے پر وسائل کے حوالے سے اور جائیداد کے حوالے سے، جس طریقے سے سوال اٹھے ہیں اس میں تین مسائل رہے ہیں۔
نمبر ایک کہ جب سوال اٹھا تو سوال کچھ سے اٹھا، کچھ سے نہیں اٹھا۔ جوگڈ پولیٹیشنز رہے۔ یعنی کہ اگر سوال اٹھایا غیرسیاسی قوتوں نے، تو جو ان غیرسیاسی قوتوں کے ساتھ مل کر چلے ان سے سوال نہیں کیا گیا اوران کےخلاف اٹھے ان سے سوال کیا گیا۔ تو یہ جو سلیکٹیو اکاونٹیبلٹی کا ایک سلسلہ جاری رہا ہے جو تقریبا آج تک جاری ہے۔
دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ جو اکاونٹیبلٹی کرنے والے ہیں ادارے، وہ نااہل بھی ہیں اور شاید کرپٹ بھی ہیں، اور یقینی طور پہ اگر اکاونٹیبلٹی ایک سیاسی انجینئرنگ کا حصہ ہے توپھر ایسے ادارے بھی ماؤف ہو جاتے ہیں اور ادارے بھی کام ٹھیک سے نہیں کر پاتے۔
تیسرا مسئلہ اکاونٹیبلٹی کا یہ بھی ہے کہ اس میں کوئی کنٹی نیوٹی نہیں ہے۔ یعنی کہ ایک آپ نے شروع کیا آپ اس کو ٹھیک سے چلنے دیں، کرنے دیں۔
ہر حکومت کے ساتھ اکاونٹیبلٹی پھر سےشروع ہو جاتی ہے اور کل کے جو لوگ جن کو اکاؤنٹ ایبل ٹھہرایا گیا، ان کو آپ کابینہ میں لے آتے ہیں اور جو آج کے کابینہ میں لوگ ہیں وہ کل کو اکاونٹیبلٹی والے جا کر کٹہرے میں کھڑے کر دیں تو اکاونٹیبلٹی کا تومذاق ہے بہر حال اور وہ مذاق کسی حد تک ابھی بھی چل رہا ہے۔
تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ جو اکاؤنٹبیلیٹی کے ادارے ہیں جو احتساب کرنےوالے ادارے ہیں ان کو صحیح معنوں میں خود مختار نہیں بنایا جاتا۔ مثلاہندوستان میں سی بی آئی ہے سینٹرل بورڈ آف انویسٹیگیشن۔ اس طرح کاادارہ جو بالکل خود مختار ہو اور سیاست سے بالاتر ہو تو وہ ہر حال میں اپناکام جاری رکھے گا۔
کسی بھی انفلوئنس کے بغیر آخر سی بی آئی ہندوستان میں جب راجیو گاندھی وزیر اعظم تھے تو ایک سٹنگ پرائم منسٹر انہوں نے بوفر سکینڈل کی جو انکواری شروع کر دی تھی۔ تو اسی طرح کےاداروں کی پاکستان میں ضرورت ہے۔
ابھی تک وہ ادارے بن نہیں پارہے کیونکہ یقینی طور پہ جو احتساب ہے سیاسی عمل بن کر رہ گیا ہے۔
کیا اجتساب کبھی صحیح معنوں میں ہو گا وہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن اس وقت حکو مت اور پی ڈی ایم کے درمیان سیاسی جنگ کا ہے۔ ایک طرف تو حکومت کی جانب سے کچھ کابینہ کے لو گ جس میں فواد چوہدری شیخ رشید وغیرہ dialogue کی پیشکش کر رہے ہیں اور دوسری طرف سےبھی کچھ لیڈر dialogue کی بات کو پوری طرححح رد نہیں کر رہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ساتھ میں مسلم لیگ فنکشنل کے محمد علی درانی کوٹ لکھپت جیل میں پی ایم ایل این کے صدر شہباز شریف کو ملے۔ ان کی اپنی زبانی درانی نےان کو تمام مسلم لیگ کو متحد کر نے کے لیے کہا اور اداروں ، حکومت اور Opposition کے درمیان track۔2 dialogue کرنے کے لیے بھی کہا۔ درانی نے یہ بھی پریس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن لیڈرزکو جیل میں رکھ کر dialogue ممکن نہیں۔
پی ڈی ایم کے استعفوں سےاس سسٹم کو بہت نقصان ہو گا۔ جہاں یہ سب با تیں درست ہیں وہاں اس سے زیادہ یہ درست ہے کہ مسلم لیگ فنکشنل پگاڑا صاحب کی پا رٹی کبھی اداروں کے اشاروں کے بغیر کوئی سیاسی قد م نہیں اٹھاتی۔ درانی کی جیل تک رسائی اور شہباز شر یف کا ان سے ایک دم ملنا بغیر نوازشریف سے اجازت لیے، ایک ہی صورت میں ہو سکتا ہے اور وہ یہی کہ یہ سب اداروں کا منظور نظرعمل تھا۔
مسلم لیگ ن کے صدر نے کیا کہا ہو گا وہ جاننا مشکل نہیں! اداروں کےمابین پیغام رساں کی بات پر نہ کامل یقین کیا ہو گا اور اس سے بڑھ کراپنے بڑےبھائی اور بیٹی کی مشاورت کے بغیر کوئی سیاسی فیصلہ ن لیگ کے صدر کے لیے ممکن نہیں ۔
پاُکستان کی سیا ست میں کئی کھیل بیک وقت چل رہے ہیں ۔ آج کل ایم کیو ایم بھی اپنی شکایات لیے چوراہے میں آن کھڑی ہوئی ہے۔ حکومت نے ہماری ایک بات بھی معاہدے کی پوری نہیں کی اور اگر ہم حکومت میں شامل رہے تو کیا ہماری بات کوئی سنے گا، کابینہ کے MQM وزیر خالد صدیقی نے کابینہ کے مردم شماری کے فیصلہ کے خلاف پریس کا نفرنس میں دھیمی یلغار کی، ۔ MQM تو اداروں کے بغیر کوئی سیاسی قدم نہیں اٹھائے گی۔
عمران خان اپنی روش پر گامزن ہیں۔ مہنگائی میں کچھ کمی آئی ہے پچھلےسال کے مقابلے میں برآمدات میں ان چار مہینوں میں کچھ اضا فہ ہواہے اور عمران خان کو بظاہر اس کا پورا یقین ہے کہ نہ تمام پی ڈی ایم استعفے دے گی اور نہ ادارے مسلم لیگ ق اور MQM سے ان کے حکومتی اتحاد کو چھوڑنے کا کہیں گے۔
اس شطرنج نما سیاسی کھیل میں کیا ابھی کچھ چالیں چلنی باقی ہیں؟
کچھ فیصلے تو بہرحال ابھی ہونے با قی ہیں۔ پی ڈی ایم کی صفوں میں ابھی الجھاؤ ہے۔
ملک میں سیاسی جھگڑے کی بات کہاں جا کر رکے گی شائد track 2 ہی سے طے ہو۔