پاکستان میں چین کی کینسینو بائیو لاجکس کمپنی کی تیار کردہ کووڈ19 ویکسین کے رضاکاروں پر ٹرائلز جاری ہیں۔
دستاویزی فلم ساز حیا فاطمہ اقبال بھی ان رضاکاروں میں شامل ہیں جنھوں نے پہلے مرحلے میں رضامندی سے ویکسین لگوائی۔
انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی بات کرتے ہوئے حیا نے بتایا: ’پہلے تو مجھے ڈر تھا کہ یہ کیسی ویکسین ہے، یہ تو چین کی ویکسین ہے۔ اوپر سے افواہیں تھیں کہ ویکسین سے خواتین کی داڑھی موچھیں نکل آتی ہیں یا پھر آدمی بندر بن جاتا ہے لیکن ایسا کچھ بھی نہیں۔ مجھے پورا ایک ہفتہ ہو چکا ہے اور اب تک کوئی منفی اثر سامنے نہیں آیا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
حیا کے مطابق ویکسین دینے سے پہلے انھیں بتایا گیا تھا کہ دیگر ویکسینز کی طرح اس سے کچھ لوگوں کو ہلکا بخار ہو سکتا ہے، تو انھیں بھی بازو میں درد رہا اور ویکسین لگنے والی شام کو انھیں کپکپی محسوس ہوئی، اس کے علاوہ کوئی بھی منفی اثر نہیں ہوا۔
’جب میں نے سنا کہ کراچی کے انڈس ہسپتال کے سربراہ ڈاکٹر عبدالباری خان نے نہ صرف خود یہ ویکسین لگوائی بلکہ اپنی اہلیہ اور بچوں کو بھی لگوائی ہے تو میرا سارا ڈر ختم ہو گیا، اگر اس ویکسین کا کوئی فائدہ نہیں تو کم از کم نقصان بھی نہیں ہوگا۔‘