اتنا آساں نہیں ویکسین رضاکار بننا

ویکسین ورکرز جو حقیقی ہیرو ہیں، دور دراز دیہاتوں میں بچوں کو مہلک بیماریوں سے محفوظ رکھنے کے لیے پیدل، سائیکلوں اور گدھوں پر سوار ہو کر دشوار ترین راستے عبور کرتے ہیں۔

ویکسین محفوظ ہے، سستی ہے اور یہ ہر ایک منٹ میں پانچ انسانی زندگیاں بچاتی ہے۔ اس کے باوجود دنیا بھر میں ہر سال 15 لاکھ سے زیادہ بچے درست ویکسین نہ ملنے کے باعث موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔

ویکسین سے محروم بچوں کی نصف تعداد جنگ سے متاثرہ ممالک اور اقتصادی طور پر کمزور ملکوں میں رہائش پذیر ہے۔

ہر بچے تک ویکسین کی درست حالت میں رسائی ممکن بنانا ایک مشکل چیلنج ہے۔ کیونکہ ویکسین کو ایک مخصوص درجہ حرارت پر رکھنا ضروری ہوتا ہے، اس عمل کو ’کولڈ چین‘ کہا جاتا ہے۔

تیاری کے بعد ویکسین کو زمینی، ہوائی اور بحری راستوں سے روانہ کیا جاتا ہے اور دنیا بھر میں صحت کے رضاکار ان قیمتی ویکسینز کو ٹھنڈا اور محفوظ رکھنے کے کٹھن چیلنج کا سامنا کرتے ہیں۔

ویکسین ورکرز جو حقیقی ہیرو ہیں،  دور دراز دیہاتوں میں بچوں کو ان مہلک بیماریوں سے محفوظ رکھنے کے لیے پیدل، سائیکلوں اور گدھوں پر سوار ہو کر دشوار ترین راستے عبور کرتے ہیں۔

اقوام متحدہ کا ادارہ ’یونیسیف‘ دنیا کے تقریباً نصف بچوں کو ویکسین فراہم کرتا ہے اور اس کو ٹھنڈا اور محفوظ رکھنے کے لیے دیگر ساز و سامان بھی مہیا کرتا ہے تاکہ یہ مشکل ترین رسائی والے علاقوں تک پہنچائی جا سکے۔

ذیل میں دنیا بھر کے ویکسین پلانے والے رضاکاروں کی تصاویر پیش کی جا رہی ہیں، جس سے ان کی مشکلات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

پاکستان

(تصویر: ٹوئٹر)


پاکستان کے شمالی علاقے میں لی گئی اس تصویر میں ایک خاتون پولیو ورکر کو دیکھا جا سکتا ہے جو سینے تک برف میں دھنسی ہوئی ہیں اور ان کی ساتھی ان کو باہر نکالنے کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں۔ ان خواتین کی جرات اور جدوجہد کو یونسیف کے سربراہ نے بھی خراج تحسین پیش کیا تھا۔

بد قسمتی سے پاکستان، افغانستان اور نائیجیریا کے بعد تیسرا ملک ہے جہاں سے اس وائرس کا خاتمہ نہیں کیا جا سکا۔ رواں برس بھی پولیو کے درجنوں کیسز سامنے آ چکے ہیں۔ پاکستان میں پولیو ورکرز کو دہشت گردی کا نشانہ بھی بنایا جاتا رہا ہے جہاں کئی ورکرز کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ ان حالات میں بھی ہیلتھ ورکرز اپنی جان کی بازی لگا کر بچوں کو ویکسین کی فراہمی کو یقینی بناتے ہیں۔

مالی

(تصویر: یونیسیف)


مامادو کاسے نامی یہ ویکسین رضاکار گدھا گاڑی پر میلوں کا فاصلے طے کرکے مالی کے دور دراز دیہاتوں تک پہنچتے ہیں، جہاں کئی خاندان اپنے بچوں کے ساتھ ان کے منتظر ہیں۔

مامادو مالی کے وسطی خطے موپتی میں ایک کمیونٹی ہیلتھ ورکر ہیں جہاں خوف، عدم تحفظ اور شہریوں کے موٹرسائیکل پر سفر پر جزوی پابندی کی وجہ سے زندگی بچانے والی ویکسین تک رسائی محدود ہو گئی ہے۔

 وانواتو

(تصویر: یونیسیف)


بحر الکاہل میں آسٹریلیا کے شمال میں جزائر پر مشتمل اس چھوٹے سے ملک کے جزیرے پینٹی کوسٹ میں واقع میلسیسی منی ہسپتال سے وابستہ نرس ڈومینک، دور دراز علاقوں میں حفاظتی قطرے پلانے کے لیے پہاڑی علاقوں کا سفر کرتے ہیں۔ سخت موسمی حالات اور دشوار گزار علاقوں میں زندگی بچانے والی ویکسین کی فراہمی انتہائی مشکل کام ہے۔

بھارت

(تصویر: یونیسیف)


ڈول سنگھ، شمالی بھارت میں ایک بنیادی صحت کے مرکز میں کام کرتے ہیں۔ ہماچل پردیش کے ضلع منڈی میں دور دراز برادریوں تک ویکسین پہنچانے کے لیے وہ ٹرالی کا استعمال کر رہے ہیں۔

جمہوریہ کانگو

(تصویر: یونیسیف)


جمہوریہ کانگو کے  صوبے تنگانیکا کے دور دراز علاقوں تک رسائی کے لیے ویکسین ورکر اپنی سائیکل کو کاندھے پر اٹھا کر ندی کو پار کر رہے ہیں۔ حالیہ برسوں میں نمایاں پیش رفت کے باوجود اس افریقی ملک میں بہت سے بچے پانچ سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ہی قابل علاج بیماریوں کے سبب موت کی نیند سو جاتے ہیں۔

منگولیا

(تصویر: یونیسیف)


انسداد خسرہ اور روبیلا کی ایک ویکسین ٹیم ایک جیپ کو منگولیا میں ایک برفیلے دریا کے پار لے جانے کے لیے ہاتھ سے کھینچنے والی فیری کا استعمال کر رہی ہے۔ وہ ابھی شمالی صوبے کے ضلع سوم کے ایک دور دراز علاقے سے واپس لوٹ رہے ہیں۔ سرد ترین موسم کے باوجود ویکسین ٹیمیں گاڑیوں، ہاتھ سے کھینچے جانے والی فیری، ہرن گاڑیوں اور پیدل بھی دور دراز علاقوں میں مقیم کمیونیٹیز کے بچوں کو حفاظتی قطرے پلانے جاتے ہیں۔ 

ایتھوپیا

(تصویر: یونیسیف)


غریب افریقی ملک میں ایک خاتون ہیلتھ ورکر موٹرسائیکل پر خسرہ کی ویکسین کو ارمینیا ہیلتھ پوسٹ سے شمالی شو زون کے گشو امبا گاؤں منتقل کر رہی ہیں۔

لیسٹے

(تصویر: یونیسیف)


مشرقی تیمور کے قریب اس جزیرے پر ہیلتھ ورکرز خسرہ، روبیلا اور پولیو بیماریوں کے خلاف قومی حفاظتی ٹیکوں کی مہم کے ایک حصے کے طور پر ویکسین فراہم کر رہے ہیں۔ وہ باؤکاؤ صحت مرکز سے لاگا ضلع کے ایک گاؤں جارہے ہیں جو انتہائی دور افتادہ ہے اور وہاں صرف پیدل ہی پہنچا جا سکتا ہے۔

بنگلہ دیش

(تصویر: یونیسیف)


بنگلہ دیش کے کاکس بازار کے ایک ذیلی ضلع رامو میں دلال روڈر، ویکسین پورٹر کے طور پر کام کرتے ہیں۔ وہ دیہی علاقوں میں کمیونٹی ہیلتھ ورکرز کو ویکسین فراہم کرتے ہیں اور حفاظتی ٹیکوں کے بارے میں شعور اجاگر کرتے ہیں۔ وہ بچوں کو قابل علاج بیماریوں سے بچاؤ کے قطرے پلاتے ہیں۔

یمن

(تصویر: یونیسیف)


گذشتہ کئی برسوں سے جنگ کے شکار ملک یمن کے قصبے عدن میں ہیلتھ ورکرز گھر گھر جا کر ہیضے سے بچاؤ کے قطرے پلاتے ہیں۔ یمن میں پہلی بار ہیضے سے بچاؤ کی مہم 2018 میں شروع کی گئی تھی جس کا مقصد دنیا کی سب سے بڑی ہیضے کی وبا کو پھیلنے سے روکنا تھا۔

تنازع کا شکار اور غیر مستحکم ملک میں خراب معاشی صورت حال اور پینے کے صاف پانی اور حفظان صحت کے فقدان سے اپریل 2017 میں ہضے کی وبا پھوٹ پڑی تھی جس سے اس بیماری کے 10 لاکھ سے زیادہ مشتبہ کیسز سامنے آئے تھے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تصویر کہانی