’قیامت جمعے والے دن آئے گی، یہ تب تک نہیں آئے گی جب تک کہ ہر ذی روح یاجوج ماجوج کے لشکر کو دیکھ نہیں لیں گے۔ یہ لشکر وہاں سے اٹھے گا یہاں تک آئے گا۔‘ پیش گوئیاں، قیاس آرائیاں، مذہبی نسخے اور راویوں کی مستند کتابیں قیامت کے موضوع سے بھری پڑی ہیں۔
قیامت برپا ہونے سے پہلے کیا کیا ہوگا ڈاکٹر شاہد مسعود پچھلی دو دہائیوں سے اس سوال کے جواب میں کئی دستاویزی سیریز پیش کرچکے، کالم نگار جاوید چودھری اور اب صابر شاکر و دیگر عوام الناس کے بھلے کے لیے بتا رہے ہیں کہ قیامت سے قبل زمانے کے خدوخال کیا ہوں گے۔
یہ تحریر آپ مصنفہ کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں
یہ سب مختصراً کیوں نہیں کہہ دیتے کہ قیامت سے پہلے سال 2020 آنا تھا، سو آ کے چلا گیا۔
سماجی زندگی کا ایسا شیرازہ تو پہلے کبھی بکھرا نہ تھا۔ ملنے والے ہاتھ ملانے سے گئے، لوگ جانے والوں کو کندھا دینے سے گئے، بیماروں کو پوچھنے والے عیادت سے گئے۔
ایسی قیامت کہ آدمی آدمی سے ڈرتا ہے، چہروں کی مسکان ماسک نے چھپا لی، ہونٹوں کی لالی پردے میں جا چھپی۔ اچھی خاصی شکلوں اور کرموں والے بھی منہ چھپائے پھرنے لگے۔
یہ تھا سال 2020 جو ہم نے ایک ان دیکھے، انجانے وائرس کے نام پہ وار دیا۔ جس برس رشتے بند کمروں میں بندھ گئے، پلاسٹک میں لپٹے جنازے ویران میدانوں میں پڑھا دیے گئے، بچے کے گلے پڑی کالی ڈوری میں اس سال کی گرہ یونہی خاموشی سے لگا دی گئی۔
بازار بند ہوئے اور لاکھوں بے روزگار ہوئے۔ اونچی انا والے محنت کش چمکتی گاڑیوں کے پیچھے بھاگتے نظر آئے اور کھوکھلے ضمیر والے اس مشکل گھڑی میں بھی پیسہ بٹورنے میں لگے رہے۔
برسوں جسے دنیا دھتکارتی رہی وہی تنہائی اس برس سب پہ لازم ہوئی، الگ تھلگ رہنے والوں کو مشکوک سمجھا جاتا تھا یا نفسیاتی، لیکن 2020 میں ملنے ملانے والے معطون ٹھہرے۔ نظریں چرا کر نکل جانے والوں کی واہ واہ ہوئی، سماج کو پیٹھ دکھانے والوں کو داد ملی۔
سوشل میڈیا نے زمانوں سے چلے آرہے سماجی تانے بانے ادھیڑ رکھے ہیں، پچھلے برس تک جو چند ایک دلائل سوشل میڈیا کے خلاف تھے، 2020 میں وہ بھی مسترد ہوئے۔ اب صرف انسان ہی انسان کی دوا نہیں رہا ڈیجیٹل سماج میں آلات انسان کے دوست ہیں، یہی دشمن بھی۔ یہ آلات محبوب ہیں یہی رقیب بھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دو ہزار بیس نے جو سب سے بڑا ظلم ہم پہ کیا وہ ہے موت کا گنتی بن جانا۔ اب موت صرف سانحہ، نقصان، کوئی خلا یا غم و اندہ کا طوفان نہیں رہی، اب موت گنتی بھی ہے۔ پہلی کھانسی، بخار کے پہلے دن سے ہسپتال کے بستر پر دراز ہونے تک کی گنتی، ہسپتال داخلے سے وینٹی لیٹر پر جانے تک کی گنتی، وینٹی لیٹر پر آتی جاتی سانسوں کی گنتی اور آخر میں کرونا (کورونا) سے مر جانے والوں اور بچ جانے والوں کی گنتی۔
وبا کے اس برس نے اور برا کیا کرنا تھا کہ موت کی حساسیت کو ہی ختم کر دیا۔ موت عدد بن جائے تو اس کا انفرادی نقصان بڑے نمبرز کے سامنے نہایت کم محسوس ہوتا ہے۔ اب وہ اٹلی میں ملٹری ٹرکوں پر لدی میتیں ہوں یا دہلی کی سڑکوں پر دوڑتی ایک ایک ایمبولنس میں ٹھونسی کئی لاشیں ہوں۔
کہتے ہیں قیامت قریب ہوگی تو جن لوگوں کے دل نفرت کے عنکبوت سے جکڑے ہوں گے وہ انکار ہی کریں گے کہ کوئی قیامت شیامت نہیں آ رہی، خود فریبی میں مبتلا یہ لوگ دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔ یہ سب دیکھنے کے لیے کسی لمبے انتظار کی ضرورت نہیں، ہم نے یہ نظارہ دو ہزار بیس میں ہی دیکھ لیا۔
جس دور میں ہاتھ جوڑ جوڑ کر کہا جا رہا ہو کہ چھ گز کا فاصلہ رکھیں وہاں ہوس طاقت کے ماروں نے بندے جمع کرنے کی شرط لگائی، کراچی تا مردان، اپوزیشن یا حکمران، بندے اکھٹے کرنے کا مقابلہ دونوں میں تاحال جاری ہے۔ آفتوں کے دور میں اگر اکھٹے ہو رہے ہیں تو بندے غائب بھی ہو رہے ہیں، سوال والے غدار بھی جواب والے گستاخ بھی۔
زمین نے خزانے اُگل دیے ہیں جسے سمیٹنے کا بکھیڑا بڑی مصروفیت ہے اس لیے گئے برس بھی توبہ تائب کا وقت نہیں ملا۔ ظالم سے مظلوم کا رشتہ تو دنیا کے آغاز سے ہے، انجام تک رہے گا دو ہزار بیس نے اس رشتے کو نئے مفہوم دینے کی جرات نہیں کی۔
زمین پر قبضے، مال منال کے جھگڑے، روٹی کے بھوکے ،گندم کے ذخیرے ، غیرت پر واری گئی بیٹیاں اور ناخلف بیٹے۔ وبا کے سال 2020 نے بھی وہی سب کچھ دیکھا جو اس سے پہلے بہت پہلے کے کئی ہزاروں برسوں نے ہوتے دیکھا۔
ہاں ایک منظر جو 2020 نے نیا دیکھا وہ تھا قدرت کا الارم، یہ الارم بج رہا ہے مگر ہم ابھی آنکھیں ہی مل رہے ہیں، دیکھتے ہیں خود مختاری کے نشے میں چور انسان کی انگڑائی کب ٹوٹتی ہے، فی الحال سال نو ہے اور وہی پرانے ہم۔