سال 2019 ختم ہوا چاہتا ہے۔ اگلا سال دروازے پر دستک دے رہا ہے۔ تمام قارئین مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے ختم ہوتا ہوا سال حوصلے سے برداشت کیا لیکن اصل امتحان کا آغاز اب ہوا ہے۔
ان شہریوں کو جو عوام کہلاتے ہیں، اگلے 12 ماہ زندگی گزارنے کے لیے کچھ خصوصی اہتمام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس اہتمام کی چند جزئیات آپ کے سامنے رکھے دیتے ہیں۔ عمل درآمد کریں گے تو دکھ اور آنسو کم ہوں گے، نہیں کریں گے تو چیخیں ہی چیخیں ہوں گی۔
2020 میں پاکستان میں زندگی گزارنے کے لیے عوام کو کھانے پینے میں احتیاط برتنی ہوگی۔ چینی جو 58 سے 84 روپے کلو ہو گئی ہے ترک کرنی ہو گی۔ آٹا 720 سے تقریباً 900 روپے اور چاول 160 سے تقریباً 200 روپے پر فروخت ہونے کی وجہ سے ضروری خوراک میں سے نکالنا پڑے گا۔ دال مسور، مونگ، چنا اور سفید چنے چونکہ 70 سے 80 روپے مہنگے ہو گئے ہیں ویسے ہی کھانے کے قابل نہیں رہے۔ پسی سرخ مرچ 170 روپے مہنگی ہوئی ہے اور ہلدی تقریباً 90 روپے۔ ان کو بھی چھوڑنا ہوگا۔ گھی، دودھ، بیسن فی کلو گرام 50 سے 60 روپے مہنگا بک رہا ہے۔ ڈبل روٹی 70 سے 100 اور صابن 45 سے 65۔
2019 کے اختتام پر قیمتوں کے یہ تحفے 2020 میں اس سے بھی زیادہ قیمتی ہو جائیں گے۔ عوام کو کھانا پینا کم یا بند کرنا سیکھنا پڑے گا۔ نہانا دھونا اور صفائی ستھرائی عیاشی کے کھاتے میں لکھ کر رد کرنا ہو گا۔ میلی قوم بھی زندہ قوم بن سکتی ہے، اس نعرے کو اپنانا ہو گا۔ خوراک سے محروم جسم خوبصورت ٹوئیٹس سے پیٹ بھر سکتے ہیں اور ملک کے لیے لڑ سکتے ہیں۔ اس پہلو کو جذبہ حب الوطنی کا مرکزی خیال بنانا ہو گا۔
2020 میں قوم کو بیمار نہ ہونے کا عہد کرنا پڑے گا اور اگر کسی وجہ سے صحت کی کوئی خرابی آن لیتی ہے تو دوائیوں کی بجائے دعاؤں اور کالے جادو پر انحصار کرنا ہوگا۔ تقریباً 500 کے قریب دوائیوں کی قیمتوں میں مزید کمر توڑ اضافہ ہو چکا ہے۔ ہسپتالوں میں مفت ٹیسٹ اور علاج کی سہولت ختم ہو گئی ہے۔ اب آپ کی بیماری آپ کا درد سر ہے۔
2020 میں ریلیز ہونے والے ٹھمکے دار آئٹم نمبرز کو سن کر جان لیوا بیماریوں کی مصیبت کو بھولنے کی عادت اپنانی ہو گی۔ یہ کرنے سے پاکستان کی سمت درست نظر آئے گی اور ہم یہ سمجھ پائیں گے کہ مائیک کے سامنے کھڑے ہو کر جو ہمیں ملک میں آنے والی انقلابی تبدیلی کے فوائد سمجھاتے ہیں وہ کتنے دانشمند اور عوام محبت میں ڈوبے ہوئے ہیں۔
اگلے سال آپ کو بجلی اور گیس دونوں کے بغیر بہترین اور خوشیوں سے بھرپور زندگی گزارنے کا طریقہ سیکھنا ہوگا۔ اس آزاد قوم کے قد آور رکھوالوں نے آئی ایم ایف کے مودبانہ مشوروں پر عمل درآمد کرنے کی ٹھانی ہوئی ہے۔ گردشی قرضے سمیت اپنی تمام نااہلیوں کا بوجھ بجلی کے بلوں کے ذریعے آپ کے فاقہ زدہ کندھوں پر ہر مہینے لادھا جائے گا۔ گیس نہ ہونے کے باوجود بل کے ذریعے یہ اپنی موجحودگی کا احساس دلائے گی اور کبھی کبھار اپنی آمد پر استعمال کی صورت میں یہ گیس کچی ہنڈیا کو پکانے سے پہلے آپ کی تمام آمدن جلا دے گی لیکن گھبرانا نہیں۔ جان اللہ کو دینی ہے۔ لہذا تقریباً 16 کروڑ عوام کو مشورہ یہی ہے کہ اپنی زندگی میں سکھ لانے کے لیے گیس اور بجلی جیسی آرائشوں سے دور رہیں۔
باقی چھ کروڑ میں سے جن کو یہ زعم ہے کہ وہ بجلی اور گیس کے بل برداشت کر سکتے ہیں، اگلے سال کے اختتام پر خود ہی سمجھ جائیں گے۔ ہم سب نے مل کر ٹھنڈے برف کمروں میں امید کی شمعیں جلانی ہیں کیوں کہ ہمارے ملک کو روشنی کی اشد ضرورت ہے۔ چاہے یہ روشنی عوامی ہڈیوں کے جلنے سے ہی پیدا ہو رہی ہو۔ ہم نے گیس کے بغیر ہنڈیا پکانے کی صلاحیت حاصل کرنی ہے۔ ہم نے ہر روز یہ سوچنا ہے کہ ہم ایک نیوکلیئر طاقت ہیں جس کے پاس اب دو سیٹوں والا جے ایف تھنڈر طیارہ بھی موجود ہے۔ ایسے خیالات سے ہمارا گرتا ہوا جذبہ دوبارہ سے سر اٹھائے گا اور ہم ففتھ جنریشن جنگ کے ذریعے پھیلی بددلی کو شکست فاش دے پائیں گے۔
آنے والے سال میں ہمیں پیسہ کمائے بغیر ٹیکس دینے کا کرتب بھی سیکھنا ہو گا۔ گاہک نہ ہونے کے باوجود دکانداری کرنے کا فن سیکھنا ہو گا۔ بیشک ہم بچوں کو سکول نہ بھجوا سکیں ہمیں علامہ اقبال، محمد علی جوہر، فیض احمد فیض اور ڈاکٹر عبدالسلام جیسے دماغ پیدا کرنے ہوں گے۔ یہ ہمارا کام ہے حکمرانوں کا نہیں۔ ہمیں سمجھنا ہو گا کہ حکمران حکمرانی کے لیے ہیں۔ عمران خان ہمیں ہدایت دینے کے لیے تعینات کیے گئے ہیں۔ کابینہ کا مقصد تجزیے کرنا ہے۔ قومی اداروں کے ترجمان نصیحتوں کی تنخواہیں لیتے ہیں۔ ہمیں ان سب کی خدمت کرنی ہے۔ اپنے خون سے ان غنچوں کو سینچنا ہے۔ یہ نایاب پھول ہیں اور ہم ہیں ان کے مالی۔ یہ سب چوہدری ہیں اور ہم ہیں ان کے خدمت گزار۔ اگر ان میں سے کوئی ایک آدھ ادھر ادھر ہو گیا تو ہمارا نظام تباہ ہو جائے گا، ہم مٹ جائیں گے۔ غنیم حملہ آور ہوں گے اور ہم اپنی آزادی کھو دیں گے۔ اللہ وہ دن نہ لائے۔
2020 میں عوام کو انصاف کی طلب سے بھی نجات حاصل کرنا ہو گی۔ اگر کہیں وہ یا ان کا کوئی عزیز گمشدہ ہو جائے، اٹھا لیا جائے یا اپنے بچوں کے بیچ سے غائب ہو جائے تو اس کو دل پر نہیں لینا۔ اگر ریاست کے مالک اور حکومتی اراکین آپ کی تذلیل کریں تو اس کو اپنی عزت سمجھنا ہے۔ شہریار آفریدی، عاشق اعوان، زلفی بخاری، شیخ رشید، فیصل واوڈا، امین گنڈہ پور، شوکت یوسفزئی، مراد سعید، فیاض الحسن چوہان اور اس طرح کے ان گنت صاحب کردار لوگوں کے افکار کو دلوں پر نقش کرنا ہو گا۔ یہ عظیم لوگ ہیں۔ 2019 میں ہمیں ان کو سمجھنے میں جو غلطیاں ہوئیں وہ 2020 میں کسی طرح دہرائی نہیں جانی چاہییں۔ حریم شاہ اور اس کی ساتھی جو بھی کہیں ان پر کان نہیں دھرنا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اپنے دل میں یہ اطمینان رکھنا ہے کہ ہم قوم کی بہترین اخلاقی تربیت کے مرحلے سے گزر رہے ہیں اور ہمارے دشمن زہریلے پروپیگنڈے کے ذریعے ہمیں اپنے ہیروز سے متنفر کرنے پر مامور ہیں۔ پروپیگنڈے کی یہ دھند اتنی ہی گہری ہے جتنی پنجاب میں سردی سے پیدا ہونے والا سفید پردہ جس کی وجہ سے عثمان بزدار کی صوبے میں لائی گئی عظیم الشان تبدیلیاں وقتی طور پر نظروں سے اوجھل ہو جاتی ہیں اور کم عقل لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس شیر شاہ سوری اور شاہ جہان کے مرکب نے کچھ کام نہیں کیا۔
آنے والے سال میں ہم عوام کو خشوع و خضوع کے ساتھ خصوصی دعائیں بھی مانگنی ہوں گی تاکہ ہماری مملکت خداداد دشمنوں کی سازشوں کو روندتی ہوئی تاریخ انسانی میں یکتا مقام حاصل کرے۔ ہماری پہلی دعا آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کی مدت ملازمت سے متعلق ہونی چاہیے۔ اگرچہ وہ خود ایسی کوئی خواہش نہیں رکھتے لیکن وہ اس بے کس قوم کی ضرورت بن چکے ہیں۔ وہ جب تک چاہیں موجود رہیں۔ وہ ہمیں دیکھیں اور ہم انہیں اور یوں یہ سلسلہ چلتا رہے۔
ہمیں بنی گالہ میں موجود عمران خان کے تحفظ، مزید ترقی اور سیاسی تسلسل کی دعا بھی مانگنی چاہیے۔ ہمارے چمن میں اتنی مشکل سے دیدہ ور پیدا ہوا ہے۔ خدا نہ کرے کہ 2020 میں یہ مرجھا جائے۔ ہمیں بھارت کو نیست و نابود کرنے کے لیے بھی اجتماعی ہاتھ اٹھانے ہوں گے۔ 2019 میں جو اس نے کشمیر پر ظلم ڈھایا ہے اور 71 سال کی تاریخ کو تبدیل کرنے کی کوشش کی ہے اس کے نتیجے میں وہ بدترین بد دعاؤں کا مستحق ٹھہر چکا ہے۔ ہمیں علم ہے کہ مفلس کی بددعا میں کتنا اثر ہوتا ہے۔ تمام جنگی سامان ایک طرف اور بددعا دوسری طرف۔
اگر ہم یہ سب کچھ کر پائیں تو 2020 کا سورج تابناک اور مکمل روشن ہو گا۔ عوام کی ایسی کی تیسی ہو گی لیکن قوم ترقی کرے گی۔ لوگوں کے حالات بگڑیں گے لیکن ملک کی سمت بہتر ہو گی اور کچھ بھی نہ ہوا توعمران تو ہوگا اور جنرل باجوہ بھی۔ 2020 میں ہمیں اس سے زیادہ اور کیا چاہیے۔